جوائنٹ فیملی میں اخراجات کی تقسیم

فتویٰ نمبر:921

سوال: اگر ایک گھر میں دو بھائی فیملی کے ساتھ رہتے ہوں ،اور وہ خرچے کو انصاف کے ساتھ تقسیم کرنا چاہتے ہوں تو کیا صورت ہوگی؟ ایک بھائی کے بیوی اور پانچ بچے ہیں ،ایک میاں بیوی ۔

ابھی تک ایک بھائی آٹا چاول وغیرہ ڈالتا ہے پورے گھر کا جسکے بچے نہیں ہیں ،اور دوسرا بل بھرتا ہے گھر کے ۔۔

اب بچوں والے بھائی کا کہنا ہے یہ انصاف نہیں ہے بل میں بھی دوسرا بھائی آدھا دے ،

جبکہ دوسرے کا کہنا ہے انصاف تو یہ ہے کہ گروسری میں اور بل میں تین حصے کرکے دو حصہ تم دو تمھاری فیملی بڑی ہے ،میں ایک حصہ دوں ہم دو ہیں ۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ شرعا اگر دونوں انصاف چاہ رہے ہیں تو کس طرح تقسیم ہوگی؟ باجی رہنمائی کردیں ۔

⏩الجواب حامدۃو مصلية⏪

سب سے پہلے یہ بات ذہن میں رکھی جائے کہ جب دو بھائی ساتھ رہ رہے ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ سمجھ اور حکمت سے کام لیتے ہوئے آپس میں اتفاق اور محبت قائم کریں اور یہ سوچیں کہ اگر وہ خرچ زیادہ بھی کررہے ہیں تو یہ ایک طرح سے صلہ رحمی میں آجاتا ہے اور آپ علیہ السلام نے صلہ رحمی کی بہت فضیلت ذکر کی ہے.

سیدنا انس رضی اللہ عنہ روایت ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

جس شخص کو یہ بات پسند ہے کہ اس کی روزی میں فراخی اور اس کی عمر میں تاخیر (یعنی اضافہ) کیا جائے تو اسے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے۔

(صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 944 ادب کا بیان : صلہ رحمی کی وجہ سے رزق میں کشادگی کا بیان)

مذکورہ بالا حدیث سے معلوم ہوا کہ صلہ رحمی یعنی رشتے داروں کے ساتھ احسان وسلوک کا معاملہ کرنے والوں کے لیے عمر میں کشادگی اور رزق میں فراخی کی خوش خبری دی گئی ہے لہذا ان تمام باتوں کے بعد اب اگر اصل مسئلے کی طرف دیکھیں کہ اگر کوئی اتفاق کی رائے قائم نہیں ہوتی تو پھر یہ کرلیا جائے کہ دونوں بھائی اپنی ماہانہ آمدنی سے گھر کے کل خرچے میں آدھی آدھی رقم باندھ لیں جس میں سے بل کی ادائی اور ماہانہ ضروری اخراجات کا خرچ ادا کیا جائے باقی ضرورت سے زائد خرچ سب اپنی اپنی استطاعت کے مطابق کرلیں یا اس کے علاوہ یہ ہوسکتا ہے کہ گھر خرچہ متعین کرلیا جائے کہ اتنا خرچہ ہمیں کرنا ہے پھر اس خرچے میں.سے آدھا آدھا دونوں بھائی دے دیں اس کے بعد جو زائد خرچ کرے وہ اپنی طرف سےکرے گھر کی مجموعی رقم سے نہ کرے جیسے گھر کا خرچ 60000 ہے اب دونوں بھائیوں نے 30000 ہزار دے دیے اب یہ رقم اگر مکمل خرچ ہوجائے تو اس کے بعد جس کی ضرورت ہے وہ خود خرچ کرے گا دوسرے بھائی سے مطالبہ نہیں کیا جائے گا کہ تم مزید رقم دو اس طرح انصاف قائم رہے گا ایک اور تجویز یہ بھی ہے کہ دونوں بھائی میں سے جس بھائی کی فیملی بڑی ہے وہ زیادہ خرچہ دے جیسے اگر گھر کا خرچ 600000 ہزار ہے تو فیملی والا بھائی 40000 ہزار دے اور 20000 دوسرا بھائی دے دے اس طرح سے کوئی ممکنہ رائے نکال لی جائے ویسے جس ترتیب کا ذکر کیا گیا ہے وہ بھی درست ہے, بڑے بھائی کو چاہیے کہ وہ باہمی اتفاق سے گھر چلائے کیونکہ اس طرح سے آپس کا توڑ اور رنجشیں پیدا کرنا مناسب نہیں.

اگر کوئی راہ اختیار نہ کی جاسکے تو پھر معاملات الگ کرلیے جائیں تاکہ رشتے باقی رہیں.

واضح رہے یہ کوئی شرعی طریقہ یا کوئی فتوی نہیں صرف چند مفید آراء اور مناسب تجاویز ہیں جس کے ذریعے امید ہے کہ آپ کے گھر کی فضا بحال ہوسکے.

و اللہ سبحانه اعلم

بقلم : بنت معین

قمری تاریخ:14.محرم.1440

عیسوی تاریخ: 25.ستمبر.2018

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبدالرحیم صاحب

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں