جمعہ کی طرح نمازعیدمیں بھی امام کے علاوہ کم ازکم تین بالغ مردضروری ہیں

لاک ڈاؤن میں نماز عید سےمتعلق دارالعلوم دیوبند کی طرف۲۳/رمضان کو جوفتوی (۱۱۳۴/ھ۱۶۹/تتمہ /ھ،سنہ :۱۴۴۱ھ) جاری کیاگیاہے ،اس میں یہ کہاگیاہے کہ

نمازعیدین کےلیے وہی شرائط ہیں، جوجمعہ کےلیےہیں ، البتہ جمعہ میں خطبہ میں شرط ہے اور وہ نماز سے پہلے ہوتاہے اور عیدین میں خطبہ سنت ہے اور وہ نماز کےبعد ہوتاہے ۔“

اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ جس طرح جمعہ کےلیےجماعت شرط ہے،اسی طرح نمازعید کےلیےبھی جماعت شرط ہے ،اورجمعہ  میں مفتی بہ قول کےمطابق جماعت کا مطلب  یہ ہے کہ امام کےعلاوہ کم از کم تین بالغ مرد ہوں، لہذا نماز عیدمیں بھی جماعت کےلیےامام کےعلاوہ کم ازکم تین بالغ  مردضروری ہیں۔

لیکن علامہ سیداحمدطحطاوی ؒ، علامہ شامی ؒ اورعلامہ رافعی ؒ کی تصریحات کی بناء پر بعض اہل علم کی رائے یہ ہے کہ جمعہ اورنمازعیدکی جماعت  میں فرق ہے یعنی :نمازعیدمیں امام کےعلاوہ صرف ایک مقتدی کافی ہے :

لہذاواضح کیاجائے کہ (۱)کیایہ رائے صحیح ہے؟

(۲)اور اگر صحیح نہیں ہے توا س رائےکےماخذ میں جوفقہی عبارتیں پیش کی جارہی ہیں ،ان کاصحیح مفہوم ومطلب  کیاہے؟ وہ فقہی عبارتیں حسب ذیل ہیں:

قوله:”بشرائطھا“۔۔۔۔۔۔وفیه ۔۔فی النھر۔۔۔الخ

قوله بشرائطھا“: لکن اعترض ط ما ذکرہ ۔۔۔۔الخ

قوله :”بأن الجمعة ۔۔الخ (تقریرات الرافعی‘۱:۱۳ ۱، ط  دارإحیاء التراث العربی‘بیروت)

(۳)الفقه علی المذاھب الأربعة میں عیدین  کی جماعت  کےمتعلق احناف کا مذہب یہ نقل کیاگیاہے کہ امام کے علاوہ ایک مقتدی کافی ہے، عربی عبارت حسب ذیل ہے :

الحنفیة قالوا:۔۔۔۔الخ  ( الفقه علی المذاہب الأربعة ۱:۲۹۷)

المستفی :

(مفتی)عارف  حسین قاسمی کشمیری

خادم تدریس جامعہ مرکزالمعارف(بھٹنڈی ،جموں کشمیر)

۲۷/رمضان المبارک ،سنہ :۱۴۴۱ھ

الجواب وباللہ التوفیق :۔ (۱،۲) جمعہ اور عیدین میں خطبے  کےعلاوہ دیگر شرائط میں کوئی فرق نہیں ہے، لہذا جس طرح جمعہ کےلیے جماعت شرط ہے ۔ا ور جس طرح جمعہ کی جماعت میں مفتی بہ قول کےمطابق امام کے علاوہ کم از کم تین ایسے بالغ مردضروری ہیں ، جو جمعہ کی امامت  کےلائق ہوں،اسی طرح عیدین کی جماعت میں بھی امام کے علاوہ کم از کم تین ایسے بالغ مردضروری ہیں ، جو عیدین کی امامت کےلائق ہوں ، ورنہ جمعہ  کی طرح عیدین  کی نمازبھی درست نہ ہوگی ۔

فقہ حنفی کی متون  معتبرہ ، شروح، ھواشی اور فتاوی ، سب میں صراحت ہے کہ عیدین  کےلیے وہی شرائط  ہیں، جو جمعہ کےلیے ہیں، البتہ جمعہ میں خطبہ شرط ہے  اور وہ نمازسےپہلےہوتاہےاورعیدین میں خطبہ سنت ہے اور وہ نماز کےبعدہوتاہے، چنانچہ :

الف:مبسوط سرخسی میں ہے :

وإنما یکون الخروج فی العیدین ۔۔الخ  (المبسوط للسرخسی ، کتاب الصلاۃ ، باب صلاۃ العیدین :۲:۳۷ ط :دارالمعرفه بیروت)

ب: محیط رضوی میں ہے :

وشرائط صلاۃ العیدین کشرائط  الجمعة۔۔الخ ( المحیط  الرضوی : کتاب الصلاۃ ، باب صلاۃ العیدین ، مخطوط ۱:۹۰/ب)

ج:کنزالدقائق میں ہے: 

تجب صلاۃ العیدین علی من تجب ۔۔الخ  ( الکنز مع التبیین ، کتاب الصلاۃ ، باب صلاۃ العیدین ،۱:۲۲۳،۲۲۴ ط: المکتبة الإمدادیة ملتان  ، باکستان )

د:المختار اور الاختیار میں ہے :

وتجب ۔۔صلاۃ العیدین ۔۔۔علی من تجب علیه صلاۃ الجمعة ، وشرائطھا۔۔۔الخ  ( المختار مع الاختیار، کتاب الصلاۃ ، باب صلاۃ العیدین ۱:۲۸۳)

قال :”وشرائطھا کشرائطھا“ یعنی السلطان والجماعة ۔۔الخ  ( الاخیار)

ھ:ملتقی الابحر میں ہے :  ( ملتقی الأبحر مع المجمع والدر ، کتاب الصلاۃ ، باب صلاۃ العیدین ،۱:۲۵۴ط:دارالکتب العلمیة بیروت )

و:مواہب الرحمٰن میں ہے :

صلاۃ العید واجیة عندنا فی الأصح لاسنة ۔۔الخ  ( مواھب الرحمن ، کتاب الصلاۃ ، باب صلاۃ العیدین ، ص:۲۶۹، ط: بیروت )

ز:اللباب میں ہے : ( اللباب فی شرح الکتاب ، کتاب الصلاۃ ، باب صلاۃ العیدین ۔۲:۲۶۱، ت:بکداس ، ط:دارالبشائر الأسلامیة )

ح:خلاصۃ الفتاوی میں ہے:

(خلاصةالفتاوی  ، کتاب الصلاۃ ،ا لفصل الرابع والعشرون فی صلاۃ العیدین ، ۱:۲۱۳، ط :المکتبة الاشرفیة ، دیوبند)

ط:اور درمختار میں ہے : (تجب صلاتھما) ۔۔الخ

(الدرا لمختار مع رد المحتار، کتاب الصلاۃ ، باب العیدین ،۳:۴۵،۴۶، ط :مکتبة زکریا دیوبند:۵:۹۸۔۱۰۱، ت:الفرفور،ط:دمشق)

ومثله کتب الفقه والفتاوی الأخری أيضاً۔

اور بعض کتابوں میں یہ صراحت  بھی ہے کہ جمعہ کی جماعت کی طرح عیدین کی جماعت  میں بھی امام کے علاوہ  کم ازکم تین بالغ  مردضروری ہیں ‘چناں چہ :

درمختار اور ردالمختار میں ہے:

(‍وأقلھا۔الجماعة۔ا ثنان ) واحد  مع الأمام  الخ (الدرالمختار مع رد المحتار ، کتاب الصلاۃ ، باب الإمامة ،۲:۲۸۹،ط:مکتبة زکریا دیوبند،۳:۵۰۶ ت:الفرفور،، ط:دمشق)

قوله:”وأقلھااثنان: لحدیث :”اثنان فما فوقھا جماعة“،أخرجه ۔۔۔الخ  (ردالمحتار )

حاشیہ حلبی میں ہے :

قوله :”وأقلھا اثنان  “ھذا فی غیر الجمعة والعیدین،أما فیھما فثلاثه سوی الامام کما سیأتی (حاشیة الحلی  علی الدرالمختار ،۱:۶۸۔ألف  ،مخطوط )

اور غمزعیون البصائر میں ہے :

قوله :”واشتراط الجماعة لھا“أي ۔۔۔(غمز عیون البصائر  ، الفن الثالث فی الجمیع  والفرق ، القول في أحکام یوم الجمعة ۴:۶۶ ط:دارالکتب العلمیة ، بیروت )

اوربعض اہل علم  نے علامہ سیدا حمد طحطاوی رحمہ اللہ وغیرہ  کی پیروی  میں نماز عید  کی جماعت  میں جو ی رائے  اختیار فرمائی ہے کہ امام کے علاوہ ایک مقتدی  کافی ہے صحیح نہیں  کیوں کہ اس باب میں علامہ سید احمد طحطاوی رحمہ اللہ سے تسامح   ہواہے اور تسامح  اور لغزش کی چیز مذہب نہیں ہوتی اور نہ ہی اس پر فتوی دیاجاتاہے ۔

تفصیل یہ ہے کہ سب سے پہلے علامہ سیدا حمدطحطاوی رحمہ اللہ نے یہ رائے اختیار فرمائی ہے کہ عیدین کی جماعت میں امام کےعلاوہ ایک مقتدی  کافی ہے، علامہ موصوف  سے پہلے کسی فقیہ  نے بھی  اپنی کسی کتاب  میں عید ین کی جماعت  میں امام کے علاوہ ایک مقتدی  کی کفایت کاتذکرہ  نہیں کیا، بلکہ سبھی فقہاء نے اجمالاًیاصراحتاً یہی تحریر فرمایا کہ جمعہ  کی طرح عیدین کی جماعت  میں بھی امام کے علاوہ کم ازکم تین ایسے بالغ مرد  ضروری ہیں جو نماز عید کے امامت کے لائق ہوں ۔

چنانچہ  علامہ رحمہ اللہ حاشیہ مراقی الفلاح ( باب احکام العیدین )میں اور درمختار  کےحاشیہ میں ۲/جگہ ایک :باب الأمامة میں اور دوسرے  : باب العیدین  میں اس کا تذکرہ کیاہے ۔اور کہیں بھی علامہ رحمہ اللہ نے”جمعہ اور عیدین کی جماعت میں اس تفریق“کی کوئی فقہی دلیل  یابنیادذکرنہیں فرمائی ہے۔

قوله:”وشرائط  الصحة“ ظاھرہ أنهلابدمن الجماعة المذکورۃ ۔۔الخ (حاشیة الطحطاوي علی المراقی ، کتاب الصلاۃ ، باب  أحکام  العیدین من الصلاۃ وغیرھا،ص:۵۲۸،ط:دارالکتب  العلمیة،بیروت )

قوله:”واحد مع الأمام “أي :فی  غیرجمعة کمافی البحر،۔۔۔الخ (حاشیة الطحطاوی علی الدر، کتاب الصلاۃ ،باب العیدین ،۱:۳۵۱،ط:مکتبة الاتحاد، دیوبند)

البتہ  علامہ موصوف ؒنے حاشیہ درمختار ( باب العیدین ) میں النھر الفائقکا حوالہ دیاہے ، جس سے معلوم ہوتاہے کہ علامہؒ نےالنھر الفائق کی اتباع  میں یہ رائے  اختیار فرمائی ہے، جبکہ حقیقت  یہ ہے کہ علامہ کو النھر  الفائق کا کلام سمجھنے میں خطا  ہوئی ہے ، کیوں کہ النھر  الفائق کاکلام ”حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کےقول پر شہر  میں جماعت  مستحبہ  کے ساتھ ادا کی جانے والی فرض نماز کےبعد کہی جانے والی تکبیر  تشریق “سےمتعلق ہے، یعنی ایام تشریق میں فرض  نمازوں  کے بعدجہر  کے ساتھ  تکبیر تشریق ، خطبہ  کی طرح شعائر میں سے ہے  ، لہذا جمعہ  کی جوشرائط  ہیں وہ تکبیر  تشریق  کےلیے بھی ہوں گی، البتہ  اذن سلطان  اور اذن  عام کی شرط  نہ ہوگی ، لہذا جن بستیوں میں جمعہ کی شرائط  نہ پائی جاتی ہوں یا جونماز جماعت  کے بغیر ادا کی جائے ،ا ن بستیوں میں اور ان نمازوں میں حضرت اما م صاحبؒ  کے قول پرتکبیر  تشریق نہیں کہی جائے گی ۔

اس ذیل میں صاحب  النھر الفائق: علامہ  سراج الدین عمر بن ابراہیم ؒ نے بہ طور اعتراض  فرمایا کہ جب تکبیر  تشریق کے باب میں جماعت  سے مطلق جماعت مراد  ہے، جمعہ ( یاعید) والی جماعت  مراد نہیں ہے ، یعنی : اگر صرف  ایک مقتدی  کے ساتھ فرض نماز باجماعت  ادا کی جائے تب بھی تکبیر تشریق  کہی جائے  گی تویہ کہنا  بلاشبہ  قابل اشکال  ہوگا کہ تکبیر  تشریق کی شرائط ، جمعہ  کی شرائط  ہیں ، کیوں کہ جمعہ (وعیدین)  کی جماعت  اور تکبیر  تشریق  کی جماعت دونوں میں فرق ہے ۔

اس میں  علامہ سید احمد طحطاوی ؒ کوتسامح  یہ ہوا کہ علامہ موصوف  ؒ نے تکبیر تشریق کی جماعت  سے عید کی جماعت  متراد لے لی ، جب کہ سیاق وسباق میں کہیں بھی جماعت  عید کا کوئی تذکرہ نہیں ہے ۔

ذیل میں النھر الفائق کی مکمل عبارت  ملاحظہ فرمائیں : (النھر الفائق ، کتاب الصلاۃ ، باب صلاۃ العیدین ،۱:۳۷۳ ط:دارالکتب العلمیة،بیروت)

جلی کردہ اور نشان زدہ عبارت :والواحدھنامع الإمام جماعة میں سیاق وسباق کی روشنی میں دو، دوچار کی طرح واضح ہے کہ ھناکامطلب :تکبیر تشریق والی جماعت  ہے ، عید والی جماعت نہیں ۔

اورعلامہ سراج الدین عمربن ابراہیم ؒ نے یہ مسئلہ اسی مقام پر ذکرفرمایاہے، شرائط عیدین وغیرہ میں کہیں ذکر نہیں فرمایاہے، بلکہ وہاں دیگر فقہاء  کے مطابق  ہی کلام فرمایاہے،اس لیے یہ بلاشبہ  علامہ سید احمدطحطاوی ؒ کا تسامح ہے ۔ اورعلامہ شامیؒ نے جس وقت درمختار کے باب صلاۃ  العیدین پرحاشیہ تحریر فرمایا توان کے سامنے طحطاوی ؒ کا حاشیہ تھا،ا نہوں نے علامہ کی پیروی میں شرائط عیدین میں علامہ کا اعتراض کا جوں کا توں نقل فرمادیااور اصل مصدرکی مراجعت نہیں فرمائی ، اگرعلامہ شامی ؒ اس موقعہ پر النھر الفائق کی مراجعت فرمالیتے تو وہ علامہ طحطاوی ؒکی پیروی نہ فرماتے بلکہ علامہ کے اعتراض کا ردفرماتے ، کیوں کہ النھر الفائق کی عبارت سیاق وسباق کی روشنی میں بالکل واضح ہے ۔

اور تعجب تویہ ہے کہ علامہ شامیؒ اس سے پہلے  باب الإمامة میں عید کی جماعت  کا صحیح مسئلہ تحریر کرکے آئے ہیں ، پھر  بھی یہاں  ذہول ہوگیافسبحان من تنزہ عن الذھول والنسیان ۔

قوله:”وأقلھااثنان ۔۔۔الخ

اور علامہ شامی ؒ نے منحة الخالق میں النھر  الفائق کا کلام تکبیر  تشریق ہی کی بحث  میں نقل فرمایاہےذیل میں البحر الرائق اور منحة الخالق دونوں کی مکمل عبارت ملاحظہ فرمائیں :

(البحر الرائق ، کتاب الصلاۃ ،بصلاۃ العیدین ،۲:۲۸۹،۲۹۰ ؒ مکتبةزکریا دیوبند)

(منحة الخالق علی البحر الرائق )

اورعلامہ رافعی ؒ  نے بھی جب اس  موقعہ پر تحثیہ کاکام کیاتوانہوں نے بھی النھر الفائق کی مراجعت  نہیں فرمائی ۔ اور دونوں باتوں کوصحیح گردان کر تطبیق کا یہ راستہ اختیار فرمایا کہ شرائط  عیدین میں جماعت سے ، فی الجملہ یا مطلق جماعت  مرادہے ،جب کہ یہ تطبیق علامہ مفتی ابوالسعود ؒ  نے تکبیر  تشریق  کے مسئلے میں ذکرفرمائی ہے اور تائید میں علامہ حموی ؒ کا حوالہ دیاہے ۔

قوله:”بأن الجمعة من ۔۔الخ (تقریرات الرافعی علی حاشیة ابن عابدین ،۱:۱۱۳، ط داراحیاء التراث  العربی ، بیروت )

اسی طرح  کا اشتباہ علامہ مفتی  ابوالسعود کو نماز عیدین میں اذن عام کی شرط کولے کرملامسکین ؒکی شرح  کنزکی عبارت  پر ہواتھا، لیکن غوروفکر  کے نتیجے  میں انہیں  یہ واضح ہوگیا تھاکہ اس مسئلے کا تعلق تکبیر تشریق  سے ہے ، عیدین  سے نہیں ہے چناں چہ فتح  اللہ المعین علی شرح الکنزلمنلامسکین ؒفرماتے ہیں 🙁 فتح اللہ المعین علی شرح الکنز لمنلا مسکینؒ کتاب الصلاۃ باب صلاۃ العیدین،۱:۳۲۴، ط:مصر)

اورتکبیر تشریق کے بیان میں فرماتے ہیں : (فتح اللہ المعین علی شرح الکنزلمنلا مسکین ؒ کتاب الصلاۃ ،باب صلاۃ العیدین ، ۱:۳۳۰،۳۳۱، ط مصر)

بہرحال زیر بحث مسئلےمیں علامہ سیدا حمدطحطاوی ؒسےتسامح ہواہے اورعلامہ شامی ؒ نے بربنائے ذہول ایک مقام پر (ردالمختار، باب صلاۃ العیدین میں )علامہ موصوف کی پیروی  کی ہے اور تسامح دلغزش کی چیزپرفتوی  نہیں دیاجاتا، اس لیے بعض اہل علم نے عیدین کی جماعت میں جوامام کےعلاوہ ایک مقتدی کی کفایت کی رائے اختیار فرمائی ہے ،وہ صحیح نہیں ہے ۔

(۳)الفقة علی المذاھب الأربعة میں حنفیہ کا مذہب غالباًردالمختار وغیرہ سے سے نقل لیاگیاہے ،جب کہ  رد المختار وغیرہ کاکلام تسامح  پرمبنی ہے جیساکہ ماقبل میں تفصیل کے ساتھ ذکر کیاگیا، نیز نقل مذہب میں مسلک کی بنیاد ی کتابوں کا اعتبارنہیں ہوتاہے بالخصوص تعارض  کے موقع پر اس لیے الفقه علی المذاھب الأربعة میں جماعت  عیدین کی اقل مقدارکے باب میں حنفیہ کی جو ترجمانی کی گئی ہے، وہ صحیح نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالیٰ أعلم

محمد نعمان سیتاپوری  غفرلہ

۲۹/۹/۱۴۴۱ھ = ۲۳/۵/۲۰۲۰،شنبہ

الجواب صحیح :حبیب الرحمٰن عفااللہ عنہ ،محمودحسن  غفرلہ بلندشہری

مفتیان دارالافتاء ،دارالعلوم دیوبند

۳۰/۹/۱۴۴۱ھ=۲۴/۵/۲۰۲۰ء

پی ڈی ایف فائل وعربی حوالہ جات میں فتویٰ حاصل کرنے کےلیےلنک پرکلک کریں:

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/permalink/1104034063299171/

اپنا تبصرہ بھیجیں