کبوتر بازی پتنگ بازی وغیرہ کا حکم

سوال :کبوتر بازی ،پتنگ بازی اور ریس وگھوڑدوڑ کی اسلام میں کیا گنجائش ہےوضاحت کریں۔

                                                                                                    سائل:عبداللہ

الجواب حامدا ومصلیا

واضح رہےکہ کھیلوں میں سب سے بہتر کھیل مسابقت (یعنی دوڑ لگانا ہے) حدیث شریف میں تین قسم کے کھیلوں کی ترغیب دی گئی ہے:(۱) گھوڑ دوڑ (۲) اسلحہ سے نشانہ بازی (۳) بیوی کو خوش کرنے کے لیے اس کے ساتھ کھیلنا۔لہٰذا دوڑ میں سبقت کا کھیل شریعت میں پسندیدہ اور موجودہ کھیلوں میں سب سے بہتر ہے ،کیونکہ اس میں جسمانی ورزش کے ساتھ جہاد کی بھی تیاری ہے  ،بشرطیکہ دیگر مفاسد شامل نہ ہوں۔

جہاں تک کبوتر بازی کا تعلق ہے وہ شرعا ناجائزہے، کیونکہ اس میں بہت سارے امور خلاف شرع پائے جاتے ہیں  جیسے: پڑوسیوں کے گھر میں جھانک تانک، شور شرابا ،نمازوں کا ضیاع ، وغیرہ وغیرہ ۔

پتنگ بازی کے اندر بھی وہ تمام مفاسدموجو د ہیں ، جو کبوتر بازی میں  ہیں،بلکہ پتنگ بازی قیمتی جانوں کو بھی ضایع کرتی ہے ،لہذا وہ بھی  ناجائز ہے۔

الدر المختار (6/ 402)

(ولا بأس بالمسابقة في الرمي والفرس) والبغل والحمار۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 404)

وأما السباق بلا جعل فيجوز في كل شيء كما يأتي (قوله فيجوز في كل شيء) أي مما يعلم الفروسية ويعين على الجهاد بلا قصد التلهي كما يظهر من كلام فقهائنا مستدلين بقوله – عليه الصلاة والسلام – «لا تحضر الملائكة شيئا من الملاهي سوى النضال» أي الرمي والمسابقة، والظاهر أن تسميته لهوا للمشابهة الصورية تأمل۔

الفتاوى الهندية (3/ 467)

ولا شهادة من يلعب بالحمام يطيرهن۔

 

 

         کفایت المفتی: 9 /189

” کبوتر بازی جس طرح کہ آج کل کی جاتی ہے یہ سخت ناجائز  اورحرام ہے کہ اس میں کتنی ہی باتیں شریعت کے خلاف ہیں (۱)اول  کوٹھوںپر چڑھنا اور پڑوس کی بے پردگی کی پروا نہ کرنا دوسرے تالیاں بجانا سیٹیاں بجانا اور شور مچانا کہ یہ سب باتیں لہو و لعب کی غرض سے کرنا سخت گناہ ہےتیسرے( دوسروں کے کبوتر پکڑ لینا اور پھران کو واپس نہ کرنا بلکہ بیچ کر اپنے کام میں لانا یہ بھی حرام ہے) چوتھے اپنے شور و شغب سے جماعت اور نمازیوں کی نماز  میں خلل ڈالنا اور ان کے خیالات کو پریشان کرنا  یہ بھی سخت معصیت اور گناہ ہے اور ان سب باتوں کا مجموعہ خدا کا عذاب نازل کرنے کے لئے سبب بن سکتا ہے دنیا میں نہ آئے تو آخرت میں مواخذہ ہونا شرعی قاعدہ سے ثابت ہے“۔

         فتاوی قاسمیہجلد24:

” پتنگ بازی جائز ہے یانہیں ؟الجواب : پتنگ بازی کے اندر وہ تمام مفاسدموجو د ہیں ، جو کبوتر بازی میں ہوتے ہیں ، مثلاً چھتوں پر چڑھنے کے وجہ سے عورتوں کی بے پردگی، ہار جیت، تضییع اوقات ، ہلاکت کاخطرہ وغیرہ وغیرہ، اطلاع ملی ہے کہ سال گذشتہ جے پور میں ۱۴؍ جنوری کو پتنگ لوٹنے میں ۱۵-۱۶ ؍ افراد چھتوں پر سے گر کر ہلاک ہوگئے ہیں ۔نیز آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح بازی لڑکر لوٹنے والوں کو شیطان مردود سے تشبیہ دی ہے؛ اس لئے مذکورہ مفاسد اور آنحضور اکی ممانعت کی بنا پر پتنگ بازی و کبوتر بازی ناجائز اور حرام ہے ، مسلمانوں پر ضروری ہے کہ ایسے مفاسد میں مبتلا ہونے سے لوگوں کو سختی یاحکمت سے روک تھام کیا کریں “۔

الموسوعة الفقهية الكويتية (35/ 338)

فأما سائر ما يتلهى به البطالون من أنواع اللهو كالنرد والشطرنج والمزاجلة بالحمام وسائر ضروب اللعب مما لا يستعان به في حق، ولا يستجم به لدرك واجب فمحظور كله۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

محمد رفیق غفرلہ ولوالدیہ

نور محمد ریسرچ   سینٹر  

دھوراجی کراچی

17جمادی الثانی1441

12 فرورى 2020

اپنا تبصرہ بھیجیں