کمیٹی ڈالنے کا حکم

سوال : کمیٹی ڈالنا کیسا ہے؟نیز منتظم کا پہلے نمبر پر کمیٹی لینے کی شرط لگانا جائز ہے؟

الجواب باسم ملھم الصواب
کمیٹی ڈالنا درجہ ذیل شرائط کے ساتھ جائز ہے ۔

1 : ہر ممبر برابر رقم جمع کروائے کوئی زیادہ یا کم نہیں۔

2 : ہر ممبر نے جنتی رقم جمع کی تھی اتنی ہی ملے زیادہ یا کم نہیں ۔

3: کمیٹی بولی لگا کر فروخت نا کی جائے یا کوئی بیچ اور خرید نا سکے کہ آگے نمبر لینے کے لئے زائد رقم دینی ہو۔

4 : اگر بیچ میں کوئی اپنی دی ہوئی مکمل رقم واپس لے کر ہٹنا چاہے تو اسکو مجبور نہ کیا جائے کیوں کہ یہ بطور قرض ہے اور قرض دینے والے کو کسی بھی وقت مطالبہ کا حق بہرحال ہے
رہا یہ کہ منتظم کا پہلا نمبر لینا تو اگر سب اس پر بخوشی راضی ہوں اور اس کے لیے کوئی الگ رقم نا دی ہو تو یہ بھی جائز ہے –

______________
حوالہ جات :

1 : و حقیقته تملیک المال على المخاطرة وهو أصل في بطلان عقود التمليات الواقعة على الأخطار۔
(احكام القرآن للحصاص 4/127)

2: يَقُولُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : الْحَلَالُ بَيِّنٌ وَالْحَرَامُ بَيِّنٌ ، وَبَيْنَهُمَا مُشَبَّهَاتٌ لَا يَعْلَمُهَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ ، فَمَنِ اتَّقَى الْمُشَبَّهَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ وَعِرْضِهِ ، وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ كَرَاعٍ يَرْعَى حَوْلَ الْحِمَى يُوشِكُ أَنْ يُوَاقِعَهُ ، أَلَا وَإِنَّ لِكُلِّ مَلِكٍ حِمًى ، أَلَا إِنَّ حِمَى اللَّهِ فِي أَرْضِهِ مَحَارِمُهُ ، أَلَا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ ، أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ.
(البخاري 52)
ترجمه:آنحضرت ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے تھے حلال کھلا ہوا ہے اور حرام بھی کھلا ہوا ہے اور ان دونوں کے درمیان بعض چیزیں شبہ کی ہیں جن کو بہت لوگ نہیں جانتے ( کہ حلال ہیں یا حرام ) پھر جو کوئی شبہ کی چیزوں سے بھی بچ گیا اس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا اور جو کوئی ان شبہ کی چیزوں میں پڑ گیا اس کی مثال اس چرواہے کی ہے جو ( شاہی محفوظ ) چراگاہ کے آس پاس اپنے جانوروں کو چرائے ۔ وہ قریب ہے کہ کبھی اس چراگاہ کے اندر گھس جائے ( اور شاہی مجرم قرار پائے ) سن لو ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے ۔ اللہ کی چراگاہ اس کی زمین پر حرام چیزیں ہیں ۔ ( پس ان سے بچو اور ) سن لو بدن میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جب وہ درست ہو گا سارا بدن درست ہو گا اور جہاں بگڑا سارا بدن بگڑ گیا ۔ سن لو وہ ٹکڑا آدمی کا دل ہے ۔

3 :” ومنها: أن يكون الخطر فيه من أحد الجانبين إلا إذا وجد فيه محللاً حتى لو كان الخطر من الجانبين جميعاً ولم يدخلا فيه محللاً لا يجوز؛ لأنه في معنى القمار۔
(بدائع الصنائع كتاب السباق فصل في شروط جواز السباق 8/349)

4 : القرعة تلاث: الثالثة: لإثبات حق واحد، وفى مقابلته [مثله] فيفرز [لها] كل حقه كالقسمة فهو جائز۔

(الفتاوى التاتارخانية: 17/177 رقم : 26876)

5 : کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: ہمارے یہاں ہندوستان میں ایک اسکیم ” “بیسی” کے نام سے ہے، مثال کے طور پر دس لوگوں نے سوسو روپیہ ڈالے، دس دن کے حساب سے ، اس کے بعد جب وہ دس دن مکمل ہو گئے تو انہوں نے پرچی بنا کر اس پر سب کے نام لکھے، اس کے بعد قرعہ اندازی کی گئی ، اس میں سے ایک پرچی اٹھائی گئی ، اس پر چی میں جس کا نام نکلا، اس کو وہ چیہ مل گیا، نہ ہی اس میں کمی ہوئی اور نہ زیادتی ؟ کیا یہ صورت صحیح ہے۔

باسمہ سبحانہ تعالی
اگر برابر برابر رقم کا لین دین ہوتا ہے، تو اصولا یہ جائز ہونی چاہیے لیکن قرعہ اندازی کی وجہ سے تملیک علی الخطر کا شائبہ پیدا ہونے کی بنیاد پر یہ معاملہ کراہت سے خالی نہ ہوگا؛ کیوں کہ اس میں ایک طرح سے جوا کی مشابہت پائی جارہی ہے، نیز آئیندہ ہر ماه شریک رقم جمع کرے گا یا نہیں ؟ اس کی بھی ضمانت لینا آج کل مشکل ہے، بہت سے ایسے واقعات ہیں کہ جس کے نام قرعہ نکل جاتا ہے ، وہ اکٹھی رقم لے کر غائب ہو جاتا ہے، اور اس سے واپسی کی کوئی صورت نہیں ہوتی ، اس لئے احتیاط اسی میں ہے کہ ایسی اسکیم میں شرکت نہ کی جائے۔

(کتاب النوازل: 11/447,448)

واللہ اعلم بالصواب

8 جمادی الاولی 1444
4 دسمبر 2022

اپنا تبصرہ بھیجیں