خلیفہ دوم حضرت عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ:قسط نمبر 2

خلیفہ دوم حضرت عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ:قسط نمبر 2

حضرت عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ کے مناقب

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

اِنَّ اللّہَ تَعَالَیٰ جَعَلَ الحَقَّ عَلَیٰ لِسَانِ عُمَرَ وَقَلبِہٖ (ترمذی)”بے شک اللہ تعالیٰ نے ’’حق ‘‘ کوعمرکی زبان پراوران کے دل میں رکھ دیاہے۔

لَو کَانَ نَبِيٌّ بَعدِي لَکَانَ عُمَرَ بن الخَطّاب (ترمذی)”میرے بعداگرکوئی نبی ہوتا تویقیناوہ عمربن خطاب ہی ہوتے۔

لَقَد کَانَ فِیمَا قَبلَکُم مِنَ الأُمَمِ ٌ مُحَدَّثُونَ مِن غَیرِ أن یَکُونُوا أنبِیَائَ فَاِن یَکُ فِي أُمَّتِي أَحَدٌ فَاِنَّہٗ عُمَرُ (بخاری و مسلم)تم سے پہلی امتوں میں کچھ ایسے لوگ ہواکرتے تھے جواگرچہ نبی تونہیں تھے، البتہ ان کے قلب میں [من جانب اللہ] القاء کیاجاتاتھا ، میری امت میں بھی اگرکوئی ایساانسان ہوتو یقیناوہ عمرہی ہوسکتے ہیں۔

یَا ابنَ الخَطّابِ! وَالَّذِي نَفسِي بِیَدِہٖ مَا لَقِیَکَ الشَّیطَانُ سَالِکاً فَجّاً اِلَّاسَلَکَ فَجّاً غَیرَکَ (بخاری و مسلم )”اے ابنِ خطاب! قسم اس اللہ کی جس کے قبضے میں میری جان ہے،جب کبھی شیطان تمہیں کسی راستے پرچلتاہوا دیکھتا ہے تووہ فوراً [وہ راستہ چھوڑکر]دوسرے راستے پرچلنے لگتاہے۔

رسول اللہﷺ کے نزدیک اپنے جلیل القدرصحابی حضرت عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ کیلئے جومقام ومرتبہ تھا اس کااندازہ مذکورہ بالااحادیث سے بخوبی کیاجاسکتاہے۔

خلافت کیلئے انتخاب

حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ ہمیشہ رسول اللہﷺ کی خدمت اورصحبت ومعیت میں پیش پیش رہے،علمی استفادہ اورکسبِ فیض کاسلسلہ ہمیشہ جاری رہا، آپؐ بھی ہمیشہ تادمِ آخرحضرت عمربن خطابؓ سے راضی اورمسرورومطمئن رہے،اوریوں آپؐ کامبارک دور گذر گیا۔آپﷺ کے بعدخلیفۂ اول حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے دورِخلافت میں حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کو انتہائی قریبی اورقابلِ اعتمادساتھی اورخصوصی مشیرکی حیثیت حاصل رہی،حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کوحضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کے مشورے، فہم وفراست، دوراندیشی، اوراصابتِ رائے پرہمیشہ مکمل بھروسہ اوراطمینان رہا۔

چنانچہ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے انتقال سے چندروزقبل مہاجرین وانصار میں سے کبارِصحابہ کے ساتھ مشاورت اورغوروفکرکے بعدیہ وصیت فرمائی کہ میرے بعد عمر بن خطاب مسلمانوں کے خلیفہ کی حیثیت سے فرائض انجام دیں گے۔ اس پربعض افرادنے اظہارِخیال کرتے ہوئے یوں کہاکہ ’’عمرکے بارے میں ہمیں کوئی ترددتونہیں ہے، البتہ یہ کہ ان کے مزاج میں سختی ہے‘‘۔ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: ’’عمرکی سختی اس لئے ہے کہ میں نرم ہوں،جب ساری ذمہ داری ان پرہوگی ، تووہ خودہی نرم ہوجائیں گے‘‘۔ اس کے بعدمزیدفرمایا:’’اگراللہ نے پوچھا،تویہ جواب دوں گاکہ اپنے بعد ایسے شخص کومسلمانوں کافرمانروا بناکرآیاہوں جوتیرے بندوں میں سب سے بہتر ہے‘‘ ۔

جس روزحضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کاانتقال ہوا،اسی روزیعنی ۲۲/جمادیٰ الثانیہ سن ۱۳ہجری بروزپیرمدینہ میں تمام مسلمانوں نے حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پربیعت کی۔

خلافت کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہی حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے سامنے اپنے مختصرخطاب میں کہا:

’’لوگو!تمہارے معاملات کی اب تمام ترذمہ داری میرے شانوں پررکھدی گئی ہے،اس لئے میری تمام سختی اب نرمی میں بدل چکی ہے،جوکوئی امن وامان اورسلامتی کے ساتھ رہناچاہے،میں اس کیلئے انتہائی نرم ہوں ،البتہ جولوگ دوسروں پرظلم وزیادتی کرتے ہیں ،میری سختی ان کیلئے بدستورقائم رہے گی،اگرکوئی کسی کے ساتھ ظلم وزیادتی کرے گا تومیں اسے اُس وقت تک نہیں چھوڑوں گاجب تک اُس کاایک رخسارزمین پرٹکاکر،اوردوسرے رخسارپرپاؤں رکھ کراُس سے مظلوم کاحق وصول نہ کرلوں،اللہ کے بندو!اللہ سے ڈرو، مجھ سے درگذرکرکے میراہاتھ بٹاؤ،نیکی کوپھیلانے اوربرائی کاراستہ روکنے میں میری مدد کرو، تمہاری جوخدمات اللہ نے میرے سپردکی ہیں، ان کے متعلق مجھے نصیحت کرو،میں تم سے یہ بات کہہ رہاہوں ، اورتمہارے لئے اللہ سے مغفرت طلب کررہاہوں‘‘۔

فتوحات

خلیفۂ دوم امیرالمؤمنین فاروقِ اعظم حضرت عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ کادورِحکومت دس سال چھ مہینے اورپانچ دن رہا، حکومتوں کے عروج وزوال کیلئے یہ کوئی بڑی مدت نہیں، مگرحضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے اس مختصرعرصے میں اسلامی حکومت کوایک جانب ایشیااوردوسری جانب افریقہ کے قلب تک پہنچادیا،اسلامی فتوحات کاایک سیلاب تھاجس کے آگے بندباندھناکسی کے بس میں نہیں تھا،’’قادسیہ ‘‘اور’’یرموک‘‘جیسی تاریخی جنگیں اسی دورمیں لڑی گئیں،جن کے نتیجے میں ہمیشہ کیلئے دنیاکاجغرافیہ ہی بدل گیا۔ ساڑھے دس برس کی اس مختصرمدت میں حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے جوعلاقے فتح کئے ان کارقبہ ساڑھے بائیس لاکھ مربع میل سے کچھ زیادہ تھا،ایک لاکھ چھتیس ہزارشہرفتح ہوئے ،جن میں چارہزارمساجدتعمیرکی گئیں۔ یوں بہت بڑے پیمانے پراللہ کی اس سرزمین پراللہ کے دین کابول بالاہوا،اوراہلِ ایمان کوایسی بے مثال اوریادگارعظمت ورِفعت نصیب ہوئی،جس کی مثال چشمِ فلک نے پھر کبھی نہیں دیکھی۔

سادگی

اس قدربے مثال فتوحات اورعظیم الشان کارناموں کے باوجودسادگی اورزُہدوتقویٰ کایہ عالم تھا کہ فرشِ خاک پرہی لیٹتے،کسی پتھرکواپناتکیہ بنالیتے،پیوندلگے ہوئے کپڑے پہنتے، اکثرکسی سالن کے بغیرصرف زیتون کے تیل کے ساتھ ہی خشک روٹی کھالیتے،زندگی ہرقسم کے کروفر، نمودونمائش اورٹھاٹ باٹ سے خالی،مگرجلال ایساکہ کوئی شہنشاہ بھی اس کی تاب نہ لاسکتاتھا،عبادتِ الٰہی میں اپنی مثال آپ تھے،خشیتِ الٰہیہ کاہمیشہ غلبہ رہتا،اورمزاج پراکثررقت طاری رہتی تھی۔

فتحِ بیت المقدس کے انتہائی یادگاراورتاریخی موقع پرجب مدینہ منورہ میں حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کواپنانائب مقررکرنے کے بعدبیت المقدس کی جانب عازمِ سفرہوئے توکیفیت یہ تھی کہ اس طویل سفرکیلئے بیت المال سے محض ایک اونٹ حاصل کیاگیاجس پروہ خود اورخادم باری باری سواری کرتے رہے۔

اُس وقت روئے زمین کی دونوں طاقتورترین سلطنتوں یعنی ’’فارس ‘‘اور’’روم‘‘ کے مقابلے میں فتح ونصرت کے جھنڈے گاڑنےاورپھراسی کے نتیجے میں فتحِ بیت المقدس کے اس تاریخی موقع پررومیوں کاایک جمعِ غفیروہاں اُمڈآیاتھاتاکہ مسلمانوں کے فرمانروا اوراس عظیم ترین فاتح کی محض ایک جھلک دیکھ سکیں، جس نے بیک وقت قیصروکسریٰ کاغرور ہمیشہ کیلئے خا ک میں ملادیاتھا،جس کے ہاتھوں ان کی شان وشوکت کاسورج ہمیشہ کیلئے غروب ہوگیاتھا، جس کی قیادت میں مٹھی بھرکلمہ گوصحرانشیں آندھی اورطوفان کی مانند ہرطرف چھاگئے تھے،تب ان سب نے اپنی کھلی آنکھوں سے یہ عجیب وغریب اورناقابلِ یقین منظردیکھاکہ یہ عظیم الشان فاتح وکشورکشا،عظیم اسلامی سلطنت کاوالی وفرمانروا،طویل سفرطے کرنے کے بعداب بیت المقدس میں داخل ہوتے وقت اُس کی کیفیت یہ ہے کہ خودپاپیادہ جبکہ خادم اونٹ پرسوار،مزیدیہ کہ اُس کے جسم پر جو لباس ہے،اُس میں ایک دونہیں چودہ پیوندلگے ہوئے ہیں،اورجب اس موقع پرکسی نے لباس تبدیل کرنے کامشورہ دیاتھا،تب اس عظیم فرمانروانے آبِ زرسے لکھے جانے کے قابل ان تاریخی الفاظ میں مختصراوردوٹوک جواب دیتے ہوئے یوں کہاتھا ’’نَحنُ قَومٌ أَعَزَّنَا اللّہُ بِالاِسلَام…’’اللہ نے ہمیں جوعزت دی ہے وہ صرف اسلام کی بدولت دی ہے ،اوربس…‘‘

کارنامے اورخدمات

خلیفۂ دوم امیرالمؤمنین حضرت عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ نے اس وسیع وعریض اسلامی سلطنت کانظم ونسق بحسن وخوبی چلانے کی غرض سے متعددبنیادی اقدامات کئے جن کی اہمیت وافادیت وقت کے ساتھ ساتھ خوب نمایاں ہوتی چلی گئی۔مثلاً:

۱… ہجری اسلامی کیلنڈرکاآغاز۔

۲…عُمالِ حکومت یعنی مختلف علاقوں کے سرکاری عہدے داروں کا ہمیشہ سختی کے ساتھ محاسبہ اوران پرکڑی نگاہ رکھنا۔

۳…مفتوحہ علاقوں میں بہت سے نئے شہروں کی تعمیر۔

۴…مفتوحہ علاقوں میں حفاظتی اقدام کے طورپرمتعددنئی فوجی چھاؤنیاں تعمیرکی گئیں، جن میں سے ہرچھاؤنی میں ہمہ وقت کم ازکم چارہزارگھوڑے جنگی مقاصدکیلئے تیاررہتے تھے۔

۵… دفاع کومضبوط ومؤثربنانے کی غرض سے متعددنئے قلعے تعمیرکروائے۔

۶…پہلی بارباقاعدہ فوج اورپولیس کامحکمہ قائم کیاگیا۔

۷…سرحدی علاقوں میں گشت کی غرض سے مستقل سرحدی حفاظتی فوج تشکیل دی گئی۔

۸…مستقل احتیاطی فوج تشکیل دی گئی جس میں تیس ہزارگھوڑے تھے۔

۹…فوجیوں کیلئے باقاعدہ وظیفہ اورتنخواہیں مقررکی گئیں۔

۱۰…ہرفوجی کیلئے ہرچھ ماہ بعدباقاعدہ چھٹی کی سہولت مہیاکی گئی۔

۱۱…باقاعدہ عدالتی نظام رائج کیاگیا،نیزقاضی مقررکئے گئے۔

۱۲…بیت المال قائم کیاگیا۔

۱۳…رقبوں اورسڑکوں کی پیمائش کی گئی۔

۱۴…مردم شماری کی گئی۔

۱۵…کاشتکاری کانظام قائم کیاگیا،اس مقصدکیلئے متعددنہریں کھدوائیں،ملک کے طول وعرض میں آبپاشی کے نظام کوبہتربنایاگیا۔

۱۶…مفتوحہ علاقوں میں چارہزارنئی مساجدتعمیرکی گئیں۔

۱۷…مساجدمیں روشنی کاانتظام کیاگیا۔

۱۸…اماموں، مؤذنوں، اورخطیبوں کیلئے باقاعدہ وظائف مقررکئے گئے۔

۱۹…معلمین اورمدرسین کیلئے باقاعدہ وظائف مقررکئے گئے۔

۲۰…’’نظامِ وقف‘‘قائم کیاگیا۔

۲۱…غلہ واناج ودیگرغذائی اجناس کی حفاظت کی غرض سے ملک کے طول وعرض میں متعددبڑے بڑے گودام تیارکئے گئے۔

۲۲…اسلامی ریاست کاباقاعدہ سکہ جاری کیاگیا۔

ملکی نظم ونسق سے متعلق ان شاندارکارناموں،بے مثال خدمات،اوریادگاراقدامات کے علاوہ مزیدیہ کہ :

٭…نمازِتراویح میں مسلمانوں کوایک امام کی اقتداء میں متحداوریکجاکیاگیا۔

٭…تاریخِ اسلام میں پہلی بار’’امیرالمؤمنین‘‘کالقب استعمال کیاگیا، جبکہ اس سے قبل خلیفۂ اول حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کیلئے ’’خلیفۃ رسول اللہ‘کالقب استعمال کیاجاتاتھا۔خلیفۂ اول کے بعدجب حضر ت عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ نے خلافت کامنصب سنبھالا،توابتداء میں انہیں’’خلیفۃُ خلیفۃِ رسولِ اللہ‘‘کہاگیا،یعنی:رسول اللہﷺکے خلیفہ کے خلیفہ)لیکن سب نے اس اشکال کوشدت کے ساتھ محسوس کیاکہ یکے بعددیگرے خلفاء کا یہ سلسلہ توبڑھتارہے گا،لہٰذاکتنی بارلفظ’’خلیفہ‘‘ کا اضافہ کیاجائے گا؟چنانچہ غوروفکرکے بعد’’خلیفہ‘‘کے بجائے’’امیرالمؤمنین‘‘ کا لقب استعمال کیاگیا،اورپھربعدمیں آنے والے خلفاء کیلئے بھی یہی لقب استعمال کیا جاتا رہا ۔

(جاری ہے۔۔۔۔)

اپنا تبصرہ بھیجیں