خلع کی ایک صورت

فتویٰ نمبر:656

سوال: ایک خاتون کی شادی ہوئی دو سال کا عرصہ ہو گیا اس کے خاوند اس خاتون کے ساتھ بالکل بھی وقت نہیں گزارتے، تو وہ لڑکی اپنے پرانے گھر دو مہینے سے آگئی ہے، لڑکی اب اس شخص کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی، اور اتنے دن ہوگئے ایک بار بھی اپنی بیوی کے بارے میں نہیں خبر لیتے، تو کیا رشتہ توڑا جا سکتا ہے؟

سائلہ :بنت عبید اللہ

کراچی

الجواب باسم ملہم الصواب

اول دونوں خاندانوں کے بااثر اور بزرگ حضرات کے ذریعے شوہر کو سمجھانے اور باہمی تعلقات صحیح کرنے کی کوشش کی جائے ،اگر شوہر راضی نہ ہو اور صلح کی کوئی صورت بھی ممکن نہ ہو تو اس صورت میں اگر عورت شوہر کے ساتھ نہ رہنا چاہےتو اس کو طلاق پر آمادہ کیا جائے ،اگر شوہر طلاق دینے پر راضی نہ ہو تو پھر عورت کو اختیار ہے کہ اپنا حق مہر معاف کرکے یا مال کے عوض خلع حاصل کر لے لیکن خلع کے لیے دونوں کی رضامندی ضروری ہے ، صرف بیوی کی رضامندی سے شوہر کے بغیر یک طرفہ عدالت کے فیصلے سے خلع نہیں ہوگا ۔ اس لیے خلع کے بجائے تنسیخ نکاح کا مقدمہ دائر کیا جائے۔

کمافی قولہ تعالیٰ: وَالصُّلْحُ خَیْر (النساء:۱۲۸)

’’ آپس میں مصالحت اور اتفاق کر لینا ہی بہتر ہے۔‘‘

لمافی صحیح البخاری(۷۹۴/۲):عن ابن عباس رضی الله عنھما أن امرأۃ ثابت بن قیس أتت النبی ﷺ فقالت یا رسول الله ثابت بن قیس ما أعتب علیہ۔الخ۔

وفی الشامیۃ (۴۴۱/۳): قوله ( وشرطه كالطلاق ) وهو أهلية الزوج وكون المرأة محلا للطلاق منجزا أو معلقا على الملك وأما ركنه فهو كما في البدائع إذا كان بعوض الإيجاب والقبول لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة ولا يستحق العوض بدون القبول۔

لمافی الدرالمختار(۴۳۹/۳):باب الخلع( هو ) ۔۔۔ ( إزالة ملك النكاح ) ۔۔۔(المتوقفة على قبولها) ۔۔۔ ( ولا بأس به عند الحاجة ) للشقاق بعدم الوفاق ( بما يصلح للمهر )۔

وفی الرد تحتہ:قوله ( للشقاق ) أي لوجود الشقاق وهو الاختلاف والتخاصم وفي القهستاني عن شرح الطحاوي السنة إذا وقع بين الزوجين اختلاف أن يجتمع أهلهما ليصلحوا بينهما فإن لم يصطلحا جاز الطلاق والخلع ۔

فقط واللہ اعلم بالصواب

بنت عبدالباطن عفی اللہ عنھا

۲۴جمادی الثانیۃ۱۴۳۹ھ

۱۲مارچ۲۰۱۸ع

اپنا تبصرہ بھیجیں