خلع لینے کی صورت میں مہر کا حکم

سوال:السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔

خلع لینے کی صورت میں مہر کا کیا حکم ہے؟اگر ادا کردیا گیا ہو؟

جواب:وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ!

واضح رہے کہ خلع میں مال کی نوعیت اور مقدار کے حوالے سے زوجین کی باہمی رضامندی کا اعتبار ہوتا ہے،تاہم اگر زیادتی شوہر کی جانب سے ہے تو شوہر کے لیے خلع کے عوض مطلقاًمال لینا مکروہ ہے ۔اور اگر زیادتی عورت کی طرف سے ہو تو تب بھی شوہر کے لیے مہر کی مقدار سے زیادہ مال لینا مکروہ ہے۔

مذکورہ تفصیل کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اگر شوہر مہر کے عوض خلع دینے پر راضی ہوتو ایسی صورت میں مہر واپس کرنا ہوگا۔ اوراگر شوہر بغیر عوض کے خلع دے دے تو یہ خلع بھی درست ہے،اس صورت میں مہر واپس نہیں کیا جائےگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ ۗ (بقرہ:۲۲۹)

ترجمہ:

“اگر تمہیں ڈر ہو کہ دونوں اللہ کی حدیں قائم نہ رکھ سکیں گے تو عورت رہائی پانے کے لئے کچھ دے ڈالے، اس پر دونوں پر گناہ نہیں”

(۲)ثم الأصل في الخلع أن النشوز إذا کان من الزوج فلا یحل لہ أن یأخذ منہا شیئًا بإزاء الطلاق لقولہ تعالیٰ : {وَاِنْ اَرَدتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَکَانَ زَوْجٍ} إلی أن قال : {فَلاَ تَأْخُذُوْا مِنْہُ شَیْئًا} [ النساء : ۲۰ ] وإن کان النشوز من قبلہا فلہ أن یأخذ منہا بالخلع مقدار ما ساق إلیہا من الصداق ، لقولہ تعالیٰ : {فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْہِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِہٖ} [ البقرۃ : ۲۲۹ ] ولو أراد أن یأخذ منہا زیادۃ علی ما ساق إلیہا فذٰلک مکروہ في روایۃ الطلاق ۔ ( المبسوط للسرخسي / باب الخلع ۳ ؍ ۱۵۱ دار الفکر بیروت ، ۶ ؍ ۱۸۳ دار الکتب العلمیۃ بیروت ، ومثلہ في الموسوعۃ الفقہیۃ ۱۹ ؍ ۲۴۳ الکویت )

(۳) عن علي بن أبي طالب رضي اللّٰہ عنہ أنہ قال : لا تخلعہا إلا بما أعطیتہا فإنہ لا خیر في الفضل ۔ ( کتاب الآثار للإمام محمد ۷۷ بحوالہ : إعلاء السنن ، کتاب الطلاق / باب کراہۃ أخذ الأکثر من المہر في بدل الخلع ۱۱ ؍ ۲۲۵ ، دار الکتب العلمیۃ بیروت ، ۱۱ ؍ ۲۳۳ کراچی )

(۴)وکذٰلک امرأۃ اختلعت من زوجہا علی أکثر من مہرہا الذي تزوجہا علیہ ، فإن کان النشوز من جہتہا طاب الفضل للزوج ، وإن کان النشوز من قبلہ کرہ لہ ذٰلک ۔ وجاز في القضاء ، خص الفضل للزوج بالکراہۃ ، والصحیح أن النشوز إذا کان من قبلہ فالکل مکروہ ، وإن کان النشوز من قبلہا طاب لہ قدر المہر باتفاق الروایات ، وہل یکرہ الفضل ؟ في روایۃ ہٰذا الکتاب : لا یکرہ ، وفي روایۃ الأصل : یکرہ ۔ ( الفتاویٰ التاتارخانیۃ ، کتاب الطلاق / باب الخلع ۵ ؍ ۷-۸ رقم : ۷۰۷۵ زکریا )

(۵) ” وإذا تشاق الزوجان وخافا أن لا یقیما حدود اﷲ فلا بأس بأن تفتدي نفسہا منہ بمال یخلعہا بہ۔۔۔ الخ “

(ہدایۃ، کتاب الطلاق، باب الخلع، مکتبۃ اشرفیۃ دیوبند ۲/۴۰۴)

(۶) في الملخص والإیضاح: الخلع عقد یفتقر إلی الإیجاب والقبول یثبت الفرقۃ ویستحق علیہا العوض۔

(الفتاوی التارتاخانیۃ، کتاب الطلاق، مکتبۃ زکریا دیوبند ۵/۵، رقم:۷۰۷۱)

(۷) ما جاز أن یکون مہرًا جاز أن یکون بدلاً في الخلع ؛ کذا في الہدایۃ ۔ ( الفتاویٰ الہندیۃ ، کتاب الطلاق / الباب الثامن ، الفصل الثاني فیما جاز أن یکون بدلاً عن الخلع وما لا یجوز ۱ ؍ ۴۹۴ زکریا )

فقط واللہ اعلم۔

اپنا تبصرہ بھیجیں