خلع نہ ملنے کی صورت میں کسی عامل کے پاس جانے کا کیا حکم ہے؟

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

اگر میاں بیوی میں نباہ کی صورت نہ ہو اور علماء نے خلع کے جواز کا فتویٰ بھی دیا. لیکن نہ لڑکی کے گھر والے خلع کا مطالبہ کرنے کیلئے مان رہے ہیں نہ لڑکا خود سے چھوڑ رہا.. تو کیا کسی عامل سے عمل کروانا جائز ہے؟ کہ شوہر خود چھوڑ دے.

جبکہ ایک چھوٹی بچی بھی ہے اور لڑکی خود جوان ہے دو سال سے والدین کے پاس ہے۔

الجواب باسم ملھم الصواب

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

واضح رہے کہ عملیات کے ذریعے شوہر کو خلع پر آمادہ کرنا اسلامی تعلیمات کا حصہ نہیں اور نہ ہی اس کی حوصلہ افزائی کی جاسکتی ہے۔لہذا عورت کے لیے بہتر یہ ہے کہ جہاں تک ہو سکے وہ خلع نہ لیں اور اپنا گھر آباد رکھیں۔اس کے لیے سب سے بہتر یہ ہے کہ دونوں خاندانوں معزز افراد جمع ہوکر کوئی نباہ کی صورت نکالیں،اگر کوئی صورت نہ بنتی ہوتو پھر شوہر کو خلع یا طلاق پر آمادہ کریں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات

1-“حدثنا سليمان بن حرب ،ثنا حماد ، عن أيوب ، عن أبى قلابة ، عن أبى أسماء ، عن ثوبان قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ” أيما امرأة سألت زوجها طلاقاً في غير ما بأس فحرام عليها رائحة الجنة”.

سنن أبي داود (2/ 234):

ترجمہ:نبی صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ہے “جو عورت بغیر کسی وجہ کے اپنے شوہر سے طلاق مانگتی ہیں اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے”۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

2-“اذا تشاق الزوجان و خافا ان لايقيما حدود الله فلا بأس بان تفتدي نفسها منه بمال يخلعهابه، فاذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة، ولزمها المال”.

(كتاب الطلاق، الباب الثامن في الخلع، 1/ 519 ط:قديمي)

فقط

واللہ اعلم بالصواب

15جمادی الاخری 1443ھ

19 جنوری2022 ء

اپنا تبصرہ بھیجیں