کیا عید میلادالنبی آپ ﷺ کی سالگرہ ہے

فتویٰ نمبر:579

سوال:کیا عید میلادالنبی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سالگرہ ہے؟

جواب:آنحضرت ﷺ کی سیرت ِ طیبہ کا تذکرہ کرنا اور اس سے لوگوں کو آگا ہ کرنا افضل ترین عبادت،موجب ِ خیر وبرکت اور سعادت ِ دنیا وآخرت ہے ،ہر مسلمان کو اس میں حصہ لینا چاہیے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی جان لینا ضروری ہے کہ بارہ ربیع الاول کو خصوصیت کے ساتھ محفل ِ میلاد یا عید میلاد النبی منعقد کرنے کی جو رسم پڑگئی ہےاس کا کوئی ثبوت حضرات ِ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ،تابعین ،تبع تابعین اور ائمہ کرام کے مبارک دور میں نہیں ملتا ،بلکہ یہ بہت بعد کی ایجاد کردہ رسم ہے اور چونکہ لوگ اس رسم کو دین کاحصہ ا ور باعث ِ ثواب سمجھتے ہیں اور شرکت نہ کرنے والوں کو ملامت کی جاتی ہے ،یہاں تک کہ اب لوگ اس کو عید الاضحی اور عید الفطر کی طرح ہی تصور کرنے لگے ہیں ،لہٰذایہ مروجہ محفلیں بدعت اور واجب الترک ہیں ۔(مأخذہ ٗ تبویب بتصرف :۵۴۱ /۱۱۵)


اسی طرح دیگر انبیاءعلیھم السلام کے پیدائش کے دن منانے کو بھی لوگوں نے دین کا حصہ سمجھ لیا ہےحالانکہ اس کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے لہٰذا اس کے منانے سے بھی اجتناب ضروری ہے ۔
البتہ میلاد کی محافل اور سالگرہ کی تقریبات میں فرق یہ ہے کہ سالگرہ محض یادگار کے طور پر منائی جاتی ہے ،اس کو دین کاحصہ یا باعث ِ ثواب نہین سمجھا جاتا اس کے برخلاف میلاد کی محافل کو لوگ دین کاحصہ اور باعث ِ ثواب سمجھتے ہیں اس لئے ان میں دین کا پہلو غالب ہے لہٰذا یہ محافل اورسالگرہ ایک جیسے نہیں ہیں ۔
مشكاة المصابيح – (ج 1 / ص 464)
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:” لا تختصوا ليلة الجمعة بقيام من بين الليالي ولا تختصوا يوم الجمعة بصيام من بين الأيام إلا أن يكون في صوم يصومه أحدكم ” . رواه مسلم
الحاوي للفتاوى للسيوطي:(ج 1 / ص 226دارالفكر)
ومن جملة ما أحدثوه من البدع مع اعتقادهم أن ذلك من أكبر العبادات وإظهار الشعائر ما يفعلونه في شهر ربيع الأول من المولد وقد احتوى ذلك على بدع ومحرمات جملة فمن ذلك استعمال المغاني ومعهم آلات الطرب من الطار المصرصر والشبابة وغير ذلك مما جعلوه آلة للسماع ومضوا في ذلك على العوائد الذميمة في كونهم يشغلون أكثر الأزمنة التي فضلها الله تعالى وعظمها ببدع ومحرمات .
الحاوي للفتاوي للسيوطي ( 1 / 282 دار الفكر):
سئل شيخ الإسلام حافظ العصر أبو الفضل بن حجر عن عمل المولد فأجاب بما نصه: أصل عمل المولد بدعة لم تنقل عن أحد من السلف الصالح من القرون الثلاثة
حاشية ابن عابدين – (ج 1 / ص 544)
قوله ( ويكره التعيين إلخ ) هذه المسألة مفرعة على ما قبلها لأن الشارع إذا لم يعين عليه شيئا تيسيرا عليه كره له أن يعين وعلله في الهداية بقوله لما فيه من هجر الباقي وإيهام التفضيل
الاعتصام للشاطبي (1 / 53):
منها: وضع الحدود; كالناذر للصيام قائما لا يقعد، ضاحيا لا يستظل، والاختصاص في الانقطاع للعبادة، والاقتصار من المأكل والملبس على صنف دون صنف من غير علة.
ومنها: التزام الكيفيات والهيئات المعينة، كالذكر بهيئة الاجتماع على صوت واحد، واتخاذ يوم ولادة النبي صلى الله عليه وسلم عيدا، وما أشبه ذلك.
ومنها: التزام العبادات المعينة في أوقات معينة لم يوجد لها ذلك التعيين في الشريعة، كالتزام صيام يوم النصف من شعبان وقيام ليلته.
وثم أوجه تضاهي بها البدعة الأمور المشروعة، فلو كانت لا تضاهي الأمور المشروعة لم تكن بدعة، لأنها تصير من باب الأفعال العادية.
واللہ سبحانہ و تعالی اعلم بالصواب
 
 
 
 

اپنا تبصرہ بھیجیں