کیا خود کش حملہ کرنا جائز ہے؟

دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر:124

 یہ بات تقریباً ہر مسلمان  کو معلوم ہے کہ اسلام  میں خود  کشی حرام ہے  ،ا ور قرآن  حکیم  اور احادیث  شریفہ  کے احکام  وارشادات  اس بارے میں بالکل واضح  ہیں لیکن کسی دشمن سے جائز  اور برحق   جنگ   کے دوران  دشمن  کو مؤثر  زک     پہنچانے کے لیے کیاکوئی خود کش حملہ  کیاجاسکتا ہے ؟

شرعی  اور فقہی  طور پر اس بارے میں دو رائے  ہوسکتی ہیں ، بعض حضرات  کے نزدیک  یہ عمل مطلقاً ناجائز ہے  اور بعض  حضرات  کی رائے  یہ ہے کہ اگر ایک جائز اور برحق جنگ  کے دوران حقیقی ضرورت  اور مجبوری  پیش آجائے ا ور ہدف  بے گناہ  لوگ نہ ہوں ، تو خود کش حملہ جائز ہے،ا ور یہ اسی طرح کا خود کش حملہ  کیاجاسکتا ہے ؟ شرعی  اورفقہی  طور پر  اس بارے میں دو رائے ہوسکتی  ہیں ، بعض حضرات کے نزدیک  یہ عمل  مطلقاً ناجائز ہے ، اور بعض  حضرات کی رائے  یہ ہے کہ  اگر ایک جائز  اور برحق  جنگ کے دوران  حقیقی  ضرورت  اور مجبوری پیش آجائے  اور ہدف  بے گناہ  لوگ نہ ہوں  تو خود کش حملہ جائز  ہے ،ا ور   یہ اسی طرح  کا خود کش حملہ  ہوگا جیسے  1965 ء میں ہندوستان  کے حملے  کے وقت  چونڈو کے محاذ پر  پاکستانی فوج  کے جوانوں   کی یہ داستانیں  مشہور ہیں کہ وہ جسموں  سے بم باندھ  کر بھارتی  ٹینکوں سے  ٹکراگئے  تھے ،ا ور اس کے نتیجے میں ٹینکوں  کی پیش قدمی  روک دی تھی  ، چونکہ  یہ ایک اجتہادی  مسئلہ ہے  ، ملک وملت کے دشمن  سے بچانے  کے لیے ایک جائز اور برحق  جنگ کے دوران  کوئی شخص ایسااقدام  کرے  تو امید  ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے حسن نیت  کی بناء پر  اس کی قربانی  قبول فرمالیں۔

لیکن یہ ساری بات اس وقت ہے  جب کھلے ہوئے دشمن  سے کوئی جائز اور  برحق  جنگ  ہورہی ہو،ا س بحث  کا اس صورت  سے کوئی تعلق نہیں  جہاں خود کش حملے کا نشان  ایسے کلمہ  گو مسلمانوں  کو یا ایسے غیر مسلموں کو بنایا جائے جس کے جان و مال کو اللہ  تعالیٰ نے   حرمت بخشی  ہے، ایک کلمہ گو  مسلمان  خواہ بدعملی  کے اعتبار سے  کتنا ہی گناہگار  ہو،وہ اللہ  تعالیٰ کی دی ہوئی اس حرمت کا حامل ہے  ، بشرطیکہ  کسی حد یا قصاص کی وجہ سے اس کی یہ حرمت  زائل نہ ہوگی ،ا ور قرآن  وحدیث  کے  ارشادات نے ایسے شخص  کے قتل  کو انتہائی  سخت جرم قرار  دیاہے ،ا بن ماجہ  کی ایک حدیث  میں  آنحضرت ﷺ نے ایک  مسلمان  کی جان ومال کو کعنے  سے بھی  زیادہ حرمت کا حامل بتایاہے بلکہ وہ خود کش  حملہ  جس کا نشانہ مسلمان  یا مسلمان  ریاست کے  پرا من  شہری  ہوں  دوہرا گناہ  ہے، ایک تو وہ دوسرے  کے خلاف قتل  عمل کا گناہ  ہے،ا ور اس کے نتیجے  میں  جتنے انسان  ناحق  قتل   ہوں ،و ہ اتنے  ہی زیادہ  گناہوں کا مجموعہ  ہے، اور دوسرے  اس  صورت میں  خود کشی کے حرام ہونے میں کسی کا کوئی اختلاف  نہیں ہے اس لیے خود کشی کا گناہ اس کے  علاوہ  ہے ۔ ( ماخذہ  : بتصرف موجودہ بحران صفحہ 5 ) واللہ اعلم

احقر محمد حسان سکھروی عفا اللہ عنہ

دارالافتاء دارالعلوم کراچی

عربی عبارات کے لیے پی ڈی ا یف فائل حاصل کریں :

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/560658824303367/

اپنا تبصرہ بھیجیں