كيا صاحب نصاب ماں کی اولاد کو زکوۃ دینا درست ہے ؟

فتویٰ نمبر:3047

سوال: پوچھنا یہ ہے کہ اگر کسی عورت کے پاس سونا موجود ہے اور وہ صاحب نصاب بھی ہے لیکن اس کا شوہر کچھ کماتا نہیں ہے یا اگر کبھی کما بھی لے تب بھی وہ گھر کے خرچے پورا کرنے کیلیے کافی نہیں ہوتا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی اس کے بچوں کی اسکول اور وین کی فیس اور کتابیں وغیرہ زکوة کی مد سے خود ہی ادا کردے تو کیا ایسا کرنا جائز ہے کیونکہ شوہر کے ہاتھ میں دینا کا کوئی فائدہ نہیں ہے وہ خود ہی خرچ کرلے گا؟

اور کیا جو زکوة دے رہا ہے اسکی زکوة ادا ہو جائے گی؟

جزاک اللہ خیرا

سائل کا نام: اہلیہ خرم

پتا: كراچی

الجواب حامدا و مصليا

واضح رہے نابالغ بچے مالداری وفقیری میں والد کے تابع ہوتے ہیں،لہذا اگر والد فقیر ہے تو ایسے نابالغ بچوں کو جو سمجھدار ہوں ، لین دین کو سمجھتے ہوں ان کو زکوۃ دینا درست ہے اور اگر وہ نا سمجھ اور بہت چھوٹے ہوں تو اگر ان کے ولی ان کی طرف سے قبضہ کرلے تب بھی زکوۃ ادا ہوجائے گی۔ اور ماں کے صاحب نصاب ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ 

البتہ زکوۃ کی ادائی کے لیے مالک بنانا شرط ہے؛اس لیے صورت مذكوره ميں سمجھ دار بچوں کو یا ان کے ولی کو زکوٰۃ کا مالک بنانا ضروری ہے ؛ لہذا زکوۃ کی رقم کو مالک بنائے بغیر خود ہی براہ راست فیس وغیرہ کی مد میں ادا کرنا درست نہیں ۔ ہاں! اگر صاحب نصاب ماں اپنے بچوں کی طرف سے وکیل بن کرقبضہ لے اور اسے فیس وغیرہ کی مد میں خرچ کردے یا آپ خود ان کی اجازت سے ان کی طرف سے وکیل بن کر ان کی فیس وغیرہ کی ادائی کردیں تو یہ جائز ودرست ہے اور اس سے زکوة ادا ہوجائے گی ۔

“و لا الی طفلہ بخلاف…… طفل الغنیۃ فیجوز لانتفاء المانع (قولہ لانتفاء المانع) علۃ للجمیع والمانع أن الطفل یعد غنیاً بغنی ابیہ بخلاف الکبیر فانہ لایعد غنیاً بغنی ابیہ ولا الأب بغنی ابنہ ولا الزوجۃ بغنی زوجھا ولا الطفل بغنی امہ “

( الدرالمختار:۲/۳۴۹ ، ۳۵۰ )

“وفي ’’التمليك‘‘ إشارة إلى أنه لا يصرف إلى مجنون وصبي غير مراهق إلا إذا قبض لهما من يجوز له قبضه كالأب والوصي وغيرهما ويصرف إلى مراهق يعقل الأخذ كما في المحيط قهستاني.”

(رد المحتار علی الدر المختار: ۲؍۳۴۴، کتاب الزکاۃ، باب مصرف الزکاۃ و العشر، ط: دار الفکر- بیروت)

” إذا دفع الزكاة إلى الفقير لا يتم الدفع ما لم يقبضها أو يقبضها للفقير من له ولاية عليه نحو الأب والوصي. “

(الفتاوی الھندیۃ:۱؍ ۱۹۰، کتاب الزکاۃ، الباب السابع في المصارف،)

’’ ھی)۔۔۔ شرعا( تملیک )خرج الاباحۃ، فلوا طعم یتیما ناویا الزکوۃ لا یجزیہ الا اذا دفع الیہ المطعوم، کما لو کساہ بشرط ان یفعل القبض، ( وفی الشامیہ) وفسرہ فی الفتح وغیرہ بالذی لا یرمی بہ ولا یخدع عنہ ،فان لم یکن عاقلا فقبض عنہ ابوہ او وصیہ او من یعولہ قریبا او اجنبیا او ملتقطہ صح کما فی البحر والنھر‘‘۔

(الدرالمختار: 2/110)

“وأما إذا قضى دين حي فقير فإذا قضى بغير أمره يكون متبرعا ولا يقع عن الزكاة وإن قضى بأمره فإنه يقع عن الزكاة ويصير وكيلا في قبض الصدقة عن الفقير والصرف إلى قضاء دينه فقد وجد التمليك من الفقير فيجوز.”

(تحفة الفقهاء- محمد بن أحمد بن أبي أحمد، أبو بكر علاء الدين السمرقندي (م: نحو۵۴۰هـ): ۱؍۳۰۷، کتاب الزکاۃ، باب من یوضع فیہ الصدقۃ،ط: دار الكتب العلمية-بيروت ٭المبسوط- محمد بن أحمد بن أبي سهل شمس الأئمة السرخسي (م:۴۸۳هـ):۲؍۲۰۳، کتاب الزکاۃ، باب العشر، ط: دار المعرفة – بيروت)

و اللہ سبحانہ اعلم

قمری تاریخ: 14/5/1440

عیسوی تاریخ: 21/1/2019

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں