کسی چیز کو منافع کے ساتھ بیچنا

سوال:السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ!

اگر کوئی چیز 400 میں خریدی پھر اس کو بیچنا چاہیں تو منافع رکھ کر بیچ سکتے، جیسے 400 والی 500 یا 600 میں۔

الجواب باسم ملھم الصواب

واضح رہے کہ شریعت میں منافع کی کوئی حد مقرر نہیں کی، بلکہ اس معاملے کو عرف پر چھوڑ دیا ہے اور ساتھ ہی تاجر کو بھی پابند کیا ہے کہ وہ کسی کی مجبوری سے غلط فائدہ نہ اٹھائے۔ لہذا عرف کے مطابق ہر چیز کا نفع لینا چاہیے ،اگر کوئی عرف سے ہٹ کر کسی چیز کو دگنی قیمت یا بہت زیادہ نفع کے ساتھ فروخت کرتا ہے تو ایسا کرنا مناسب بھی نہیں اور انسانی مروّت کے بھی خلاف ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سنن ابی داؤد میں ہے:

“عَنْ أَنَسٍ قَالَ النَّاسُ: يَا رَسُولَ اﷲِ غَلَا السِّعْرُ فَسَعِّرْ لَنَا، فَقَالَ رَسُولُ اﷲِ: إِنَّ اﷲَ هُوَ الْمُسَعِّرُ الْقَابِضُ الْبَاسِطُ الرَّازِقُ، وَإِنِّي لَأَرْجُو أَنْ أَلْقَی اﷲَ وَلَيْسَ أَحَدٌ مِنْکُمْ يُطَالِبُنِي بِمَظْلَمَةٍ فِي دَمٍ وَلَا مَالٍ”.

(٣ / ٢٧٢، رقم الحديث: ٣٤٥١)

ترجمہ:

“حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ لوگوں نے شکایت کی کہ اے اللہ کے رسول (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھاؤ بہت چڑھ گئے ہیں، لہٰذا ہمارے لیے نرخ مقرر فرما دیجیے۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ نرخ مقرر کرنے والا تو اللہ تعالیٰ ہے، وہی رزق کی تنگی اور کشادگی کرتا ہے، اور میں یہ تمنا رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملوں کہ تم میں سے کسی کا مجھ سے مطالبہ نہ ہو، جانی یا مالی زیادتی کا”۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

“ومن اشتری شیئًا و أغلی في ثمنه فباعه مرابحةً علی ذلك جاز، وقال أبویوسف: إذا زاد زیادةً لایتغابن الناس فیها فإني لا أحب أن یبیعه مرابحةً حتی یبیّن ، و الأصل أنّ عرف التجار معتبر في بیع المرابحة”.

(الفتاوی الهندیة :3/161)

سنن ابی داؤود میں ہے:

“قد نهی النبي ﷺ عن بیع المضطر”. (سنن أبي داؤود: 2/16)

فتاوی شامی میں ہے:

“قوله: بیع المضطر هو أن یضطر الرجل إلی طعام أو شراب أو لباس أو غیرها ولایبیعها البائع إلا بأکثر من ثمنها بکثیر، وکذلك في الشراء منه”.

(رد المحتار علی الدر المختار:5/59)

فقط-واللہ تعالی اعلم بالصواب

اپنا تبصرہ بھیجیں