لفظ مولی کی تحقیق

فتویٰ نمبر:5010

سوال: محترم جناب مفتیان کرام! 

کیا مولانا عربی لفظ ہے؟ کیا درود شریف میں اس کا استعمال درست ہے؟اور چونکہ یہ لفظ شیعہ حضرات استعمال کرتے ہیں تو کیا ہمارے لیے اس کا استعمال درست ہے؟

والسلام

الجواب حامداو مصليا

“مولی” عربی لفظ ہے اور قرآن و حدیث میں یہ لفظ متعدد بار آیا ہے نیز عربی زبان میں اس کے متعدد معانی ہیں۔ اسی لفظ کے ساتھ “نا” ضمیر بطور اضافت استعمال کی جاتی ہے۔ قرآن و حدیث میں یہ لفظ اللہ کے علاوہ دوسروں کے لیے بھی استعمال ہوا ہے۔

سورۃ محمد میں ہے:

ذَ ٰ⁠لِكَ بِأَنَّ ٱللَّهَ مَوۡلَى ٱلَّذِینَ ءَامَنُوا۟ وَأَنَّ ٱلۡكَـٰفِرِینَ لَا مَوۡلَىٰ لَهُمۡ 

یہ اس لیے کہ جو مومن ہیں ان کا خدا کارساز ہے اور کافروں کا کوئی کارساز نہیں۔

( ما فوق الاسباب کام بنانے والی ذات صرف اللہ تعالی کی ہے، اور یہاں اسی معنی میں استعمال ہوا)

سورۃ النساء آیت 33 میں ہے:

وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ 

اور ہر کسی کے لیے ہم نے مقرر کردیے ہیں وارث اس مال کے کہ چھوڑ مرے ماں باپ اور قرابت والے۔

(اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے میت کے ورثاء کو ”موالی“ فرمایا ہے‘ جو ”مولیٰ“ کی جمع ہے)

سورۃ النحل میں ہے:

وَضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا رَّجُلَيْنِ اَحَدُهُمَآ اَبْكَمُ لَا يَـقْدِرُ عَلٰي شَيْءٍ وَّهُوَ كَلٌّ عَلٰي مَوْلٰهُ 

اور بتائی اللہ نے ایک دوسری مثال دو مرد ہیں ایک گونگا، کچھ کام نہیں کرسکتا اور وہ بھاری اپنے آقا پر۔

سورۃ مریم آیت 5میں ہے:

وَإِنِّی خِفۡتُ ٱلۡمَوَ ٰ⁠لِیَ مِن وَرَاۤءِی وَكَانَتِ ٱمۡرَأَتِی عَاقِرࣰا فَهَبۡ لِی مِن لَّدُنكَ وَلِیࣰّا 

اور میں ڈرتا ہوں اپنے بھائی بندوں سے اپنے پیچھے اور عورت میری بانجھ ہے.

(اس آیت میں اپنے قرابت داروں کو ”موالی“ کہا گیا ہے جو ”مولیٰ“ کی جمع ہے)

سورۃ احزاب آیت 5 میں ہے:

فَإِن لَّمۡ تَعۡلَمُوۤا۟ ءَابَاۤءَهُمۡ فَإِخۡوَ ٰ⁠نُكُمۡ فِی ٱلدِّینِ وَمَوَ ٰ⁠لِیكُمۡۚ 

پھر اگر نہ جانتے ہو ان کے باپ کو تو تمہارے بھائی ہیں دین میں اور رفیق ہیں۔

(اس آیت میں وہ مسلمان بھائی جن کے والد کا علم نہیں، ان کو مولیٰ یعنی دوست کہہ کر بلانے کا حکم ہے)

سورۃ الدخان آیت 41 میں ہے:

يَومَ لا يُغنى مَولًى عَن مَولًى شَيًا وَلا هُم يُنصَرونَ 

جس دن کوئی دوست کسی دوست کے کچھ کام نہ آئے گا اور نہ ان کو مدد ملے گی

سورۃ التحریم آیت 4 میں ہے:

فَإِنَّ ٱللَّهَ هُوَ مَوۡلَىٰهُ وَجِبۡرِیلُ وَصَـٰلِحُ ٱلۡمُؤۡمِنِینَۖ 

تو اللہ ہے اس کا رفیق اور جبرئیل اور نیک بخت ایمان والے اور فرشتے اس کے پیچھے مددگار ہیں۔

(اس آیت میں اللہ تعالیٰ، حضرت جبریل اور نیک مسلمانوں کو پیغمبرِ اسلام کا مولیٰ یعنی دوست فرمایا گیا ہے۔ )

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی زبان مبارک سے اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسروں کو ”مولا“ اور ”مولانا“ فرمایا ہے‘ جیسا کہ کئی احادیث مبارکہ اس پر شاہد ہیں۔ 

عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: مولی القوم من انفسہم۔ (بخاری‘ ج:۲‘ص:۱۰۶۴) 

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قوم کا آزاد کردہ غلام اسی قوم کا شمار ہوگا۔

لغت عرب میں ”مولیٰ“ معنی :

قال ابن الأعرابي: المولى: المالك وهو الله، والمولى: ابن العم، والمولى: المعتق، والمولى: المعتق، والمولى: الجار، والمولى:الشريك، والمولى: الحليف، والمولى: المحب، والمولى: اللّويّ،والمولى: الولي. 

چچازاد، آزاد کرنے والے، آزاد ہونے والے، کاروباری ساجھی، معاہدہ کرنے والے، محبت کرنے والے، با اثر اور دوست سب کو (مولىٰ) کہتے ہیں۔

قرآن و حدیث اور عربی لغت کی روشنی میں یہ بات واضح ہوگئی حقیقی مولیٰ اللہ تعالیٰ ہے، اور کمال ولایت اسی کے لیے ہے، جس معنی میں اللہ تعالیٰ کو ”مولیٰ“ کہا جاتا ہے، اس معنی میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کو ”مولیٰ“کہنا جائز نہیں، لیکن دوسرے معنی کے لحاظ سے غیر اللہ کو مولیٰ کہنا جائز ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے درود شریف میں مولانا کہنا آقا و سردار کے معنی میں ہوتا ہے ، یہ کمال ادب ہے، محبت بھی، یہ بطریق اولی جائز ہے۔

نیز جس طرح قرآن و حدیث میں یہ لفظ اہل ایمان لیے بطور اعزاز استعمال ہوا اسی نسبت سے قدیم زمانے سے اہل علم علماء کے لیے یہ :مولانا” بطور احترام بولا جاتا ہے۔

جہاں تک حضرت علی کے لیے مولی کے لفظ کے استعمال کا تعلق ہے تو یہ بھی روایات میں ملتا ہے۔ 

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے : من كنت مولاه فعلي مولاه

جس کا میں دوست ہوں اس کا علیؓ بھی دوست ہے۔یعنی جو مجھ سے محبت رکھتا ہے، وہ حضرت علیؓ سے بھی محبت رکھے۔

لہذا حضرت علی کے لیے مولی کا لفظ محب و محبوب کے معنی میں استعمال کیا جائے تو درست ہے۔ تاہم جیسا کہ اس زمانے میں ایک گمراہ فرقہ کا “مولی علی” کہنے سے نظریہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد ان کے خلیفہ بلا فصل تھے یا وہ حلول کے عقیدے سے مولا کہتے ہیں تو اس معنی میں مولی علی کہنا جائز نہیں ہوگا اور خاص طور پر جہاں سننے والے ” مولی علی” کے مختلف معانی کے فرق اور پس منظر کو نہ سجھتے ہوں اس وقت اس سے اجتناب کرنا چاہیے 

ومنه قول النبي صلّى الله عليه وسلّم: ” من كنت مولاه فعلي مولاه “، معناه: من تولاني فليتولّ علياً (تاریخ ابن عساکر 238/42و اللہ سبحانہ اعلم

قمری تاریخ:1440/10/9

عیسوی تاریخ:2019/6/12

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں