لڑکے کا اپنی ماں کو غلط نظر سے دیکھنا یا سسر کا اپنی بہو کو غلط نظر سے دیکھنا

سوال:اگر کوئی لڑکا اپنی ماں کو غلط نظروں سے دیکھتا ہے یا ہاتھ لگاتا ہے تو اس کا کیا حکم ہے اور کوئی سسر اپنی بہو کو غلط نظروں سے دیکھتا ہے یا ہاتھ لگاتا ہے تو اس کا کیا حکم ہے؟

الجواب باسم ملھم الصواب

مرد کے لیے اس کی ماں اور بہو دونوں محارم عورتوں میں سے ہیں جو قرابت نسب اور قرابت سبب(رشتہ داری)کی وجہ سے ابدی طور پر حرام ہیں چنانچہ یہ دونوں نکاح کی راہ سے ہمیشہ کے لیے حرام ہیں اور ان سے وطی اور وہ امور جو وطی کے لوازم(جیسےغلط نظر ڈالنا،ہاتھ لگانا)سے ہوتے ہیں وہ بھی ان عورتوں سے ہمیشہ کے لیے حرام ہیں۔

واضح رہےکہ جس طرح محارم سے بوجہ وطی کے حرمت مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے اسی طرح شھوت سے ہاتھ لگانے سے بھی ثابت ہوجاتی ہےلیکن فرج کے علاوہ اور اعضاء جسم کو صرف شھوت کے ساتھ دیکھنے سے حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوتی بلکہ شھوت سے مس کرنے سے ہوتی ہےالبتہ مس سے حرمت مصاہرت ثابت ہونے کے لیے چند شرائط ہیں اگر وہ پوری ہوں گی تو حرمت ثابت ہوں گی اگر ان میں سے ایک بھی کم ہو گی تو حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوگی:

۱۔ جس کومس کیا ہواگر وہ لڑکا ہے تو بالغ یا مراہق ہویعنی لڑکا بارہ سال یا اس سے زیادہ کا ہو اور اگر لڑکی ہے تو بالغہ یا مشتھاۃیعنی نو سال یا اس سے زیادہ کی ہو ، لڑکا یا لڑکی کی عمر اس سے کم ہو تو حرمت مصاہرت ثابت نہ ہوگی اگرچہ مس کرنے والا عاقل بالغ ہو۔

۲۔ مس بغیرحائل کے ہو ، یعنی کپڑے کے ساتھ پکڑنے اورہاتھ لگانے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی البتہ کپڑے اتنے باریک ہوں کہ حرارت محسوس ہوتو حرمت ثابت ہوگی۔

۳۔ شھوت کے ساتھ مس کیا ہو،اگر مس کرنے والا تندرست ہو تواگرمس سے پہلے شھوت نہ ہومس کے وقت ہوئی تو آلے میں حرکت ہی شھوت سمجھی جائے گی شدت ضروری نہیں، اگر مس سے پہلے حرکت تھی تو مس کے وقت اس میں انتشار ضروری ہے اگرخوف وحیا کی وجہ سے شھوت ہی ختم ہوجائے

تو حرمت ثابت نہیں ہوگی،اسی طرح اگر آلے میں، مس سے پہلے حرکت اور انتشار دونوں موجود تھی تو مس کے وقت شدت ضروری ہوگی خلاصہ یہ ہے کہ مس کے وقت کی حالت ، مس سے پہلے کی حالت سے زیادہ ہونی ضروری ہے ورنہ حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔

اگر مس کرنے والا تندرست نہ ہو تو اس کی شھوت، دل کی دھڑکن تیز ہونےاور طبیعت میں اضطراب ہونے سے ہوگی صرف میلان سے شھوت متحقق نہیں ہوگی؛واضح رہے مذکورہ شہوت مس کے ساتھ ہو، اگر شھوت مس سےپہلے ہو اس وقت نہ ہو یا بعد میں ہوگئی ہو لیکن مس کے وقت نہ ہو تو حرمت مصاہرت ثابت نہ ہوگی۔

“اور شرط حرمت ، شھوت عند المس و التقبیل ہے نہ شھوت سابقہ۔۔نہ لاحقہ۔”(امدادالاحکام:ج۲ص۸۱۱)

۴۔ جس کو شھوت سے مس کیا ہو اسی کے ساتھ جماع کی خواہش بھی ہو اگر خواہش مطلقانہ ہو یا اس کے ساتھ نہ ہو (جس کو مس کیا ہو)یا خواہش تو ہو لیکن کسی اور کے ساتھ ہو تو ان صورتوں میں حرمت مصاہرت ثابت نہ ہوگی۔

“نیز یہ بھی ضروری ہے کہ جس عورت کو ہاتھ لگایا ہے میلان اسی کی طرف ہو اگر دوسرے کی طرف ہوگا تو حرمت ثابت نہ ہوگی۔ ۔ ۔ ۔الخ۔”(امداد الاحکام:ج۲ص۸۰۱)

۵۔ انزال نہ ہو اگر انزال منی ہوجائے تو پھر حرمت مصاہرت ثابت نہ ہوگی۔

۶۔ لواطت(پچھلے راستے سے جماع)چونکہ سبب للولد (بچہ پیدا کرنے کا سبب)نہیں ہے اس لیے اس سے اوراس کی خواہش سے حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔

۷۔ حرمت مصاہرت کے ثبوت کے لیے فاعل کا اقرار یا دو عادل گواہوں کی گواہی کا پایا جانا ضروری ہے نیز اگر بہو مثلا سسر پر شھوت کے ساتھ چھونے کا الزام لگائے تو شوہر کو اس کی سچائی کا غلبہ ظن یا تصدیق ضروری ہے۔

“حرمت مصاہرت کے لیے حجت تامہ یعنی دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کی شھادت ضروری ہے ایک مرد اور ایک عورت کی شھادت سے حرمت کا ثبوت نہیں ہوسکتا۔اگر خاوند منکر ہے اوع دو معتند علیہ گواہ موجود نہیں تو حرمت مصاہرت کے ثبوت کا حکم نہیں کیا جائے گا۔”

(فتاوی مفتی محمودج۵ص۱۷۰)

ان ساری تفصیل کے بعد اصل جواب ملاحظہ کریں:

اوپر ذکردہ سب شرائط اگر موجود ہیں تو حرمت مصاہرت ثابت ہوجائے گی ؛ پہلی صورت میں ماں اپنے شوہر پر حرام ہوجائے گی اور دوسری صورت میں بہو اپنے شوہر پر حرام ہوجائے گی دونوں شوہروں پر لازم ہوگا کہ اپنی بیویوں کو فورا زبانی طلاق دے کر علیحدہ کریں اس کے بعد ان عورتوں کے لیے عدت پوری کرنے کے بعد دوسرا نکاح کرنا جائز ہوگا۔

عن ابراھیم :قال اذا قبّل الرجل امّ امراتِہ او لمسَھا من شھوۃ حُرِمتْ علیہ امراتُہ۔اخرجہ محمد فی الجمع ورجالہ ثقات (اعلاءالسنن:ج۱۱ص۱۳۱)

والمراد اذا لم تکن محرما:لان المحْرم بسبیلٍ منھا الا اذا خاف علی نفسہ او علیھا الشھوۃَفحینئیذٍ لا یمسُّھا ولا یَنظرُ الیھا ولا یَخلو بھا لقولہ علیہ السلام:العَینان یَزنیان۔ ۔ ۔ ۔فکان فی کل واحد منھما زناً والزنا محَرَّمٌ بجمیع انواعہ وحرمۃُ الزنا بالمحارم اشدّ واغلظُ فیجتنبُ الکلَّ۔(البحر الرائق :ج۳ص۱۷۳)

قال ایضا:ثم المسُّ انما یُوجِبُ حرمۃَ المصاھرۃِ اذا لم یکن بینھما ثَوبٌ۔(الفتاوی الھندیۃج۱ص۲۷۵)

وما ذکر فی حد الشھوۃِ من انَّ الصحیحَ انْ تنتشرَ الآلۃُ او تزداد انتشارا کما فی الھدایۃ وفی الخلاصۃ وبہ یفتی فکان ہو االمذھب۔(مجمع الانھر ج۱ص۴۸۱)

وثبوتُ الحرمۃِ بلمسھا مشروطٌ بان یصْدُقھا ویقع فی اکبر رایھا صدقُھا۔۔۔۔الخ(الدر المختار:ج۳ص۳۳)

ونصابھا (لغیرھا من الحقوق سواء کان)الحق (مالااو غیرہ کنکاح۔ ۔ ۔ (او رجل وامراتان)۔ ۔۔الخ

فقط ۔ ۔۔واللہ تعالی اعلم بالصواب

بنت عبدالباطن غفر لھا

۱۶جمادی  الاولی۱۴۳۹ھ

2فروری 2018

اپنا تبصرہ بھیجیں