میں نے فارغ کردیا سے کونسی طلاق ہوگی،عدت کاخرچ کتنا ہے

سوال: ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ  اگر تم اپنی بہن کے گھر گئیں تو تمہیں طلاق ۔اور بیوی اپنی بہن کے گھر چلی گئی،پھر رجوع ہوگیا۔پھر کچھ دنوں پہلے ان کے درمیان جھگڑا ہوا۔جھگڑے کے بعد شوہر نے گھر سے باہر نکل کر لوگوں کے سامنے کہا کہ میں نے اسے فارغ کردیا ۔بعد میں اس   کی سالی نے جو اس کی بھابھی بھی ہے  ایک عورت کے ساتھ اس سے پوچھا کہ کیا آپ نے ان الفاظ سے  بیوی کو طلاق دی ہے؟ تو اس نے کہا  کہ ہاں طلاق دی ہے۔ اب عورت اپنے میکے چلی گئی ہے۔

یہاں دوسوال ہیں ۱۔۔طلاقیں کتنی ہوئی ہیں؟ ۲۔۔ یہ شخص  بہت غریب ہے عدت کا خرچہ کتنا دینا ہوگا؟

سائل:احمد حسین

الجواب حامدا ومصلیا

یہ جواب سائل کے بیان کے مطابق دیا جارہا  ہے ۔اگر سائل کا بیان  واقعہ کے مطابق نہیں تو درست صورت بتا کر دوبارہ جواب طلب کیاجائے۔

۱۔۔۔واضح رہے کہ سوال میں ذکر کردہ صورت کے مطابق جھگڑے سے قبل تک شوہر کو دو طلا ق کا اختیار باقی تھا۔اب لڑائی کے بعد مذکور ہ شخص کے الفاظ ”میں  نے اسے  فارغ کردیا“ بنیت طلاق کہنےسے ایک اور طلاق(بائن) واقع ہوگئی ۔ اب شوہر کے پاس  ایک طلا ق کا حق ہے ۔البتہ دوسری طلاق کےبعد باہمی رضامندی سےنئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے۔

۲۔۔۔عدت میں شوہر  پر اپنی وسعت کے مطابق مطلقہ کا نان نفقہ(خرچہ) ادا کرنا لازم ہے ۔شوہر کی مالی حالت کمزور ہے تو کم از کم دوران عدت اتنی رقم جس سے ایام عدت  میں  کھانے ،پینے  اور دیگر بنیادی ضروریات مثلا صابن،سرف وغیرہ کا خرچہ  نکل جائے نفقہ کی مد میں ادا کرنا لازم ہے۔ایام عدت میں عورت کی رہائش  بھی شوہر کے ذمہ ہے  لہٰذاعورت کو شرعا شوہر کے گھر میں ہی  عدت پوری کرنا ضروری ہے۔اگر بیوی کے پاس اپنے میکے جاکر عدت گزارنے کا کوئی معقول عذر ہے تب بھی شوہر پر رہائش کا خرچہ دینا لازم ہے۔لیکن اگر شوہر اپنے گھر میں رہائش دینے پر راضی ہے اس کے باوجود عورت بغیر کسی معقول عذر کے  اپنے میکے چلی جائےتو شوہرعدت کا خرچہ دینے کا پابند نہیں۔

كما جاء فی کلام الرب سبحانه وتعالی: [الطلاق: 1]۔۔۔ [الطلاق: 6]۔۔۔ [الطلاق: 7]۔۔۔ [البقرة: 228]  آسان ترجمہ قرآن:(مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ)

{ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ}

ترجمہ:ان عورتوں کو ان کے گھروں سے نہ نکالو، اور نہ وہ خود نکلیں

أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وُجْدِكُمْ

ترجمہ:ان عورتوں کو اپنی حیثیت کے مطابق اسی جگہ رہائش مہیا کرو جہاں تم رہتے ہو

{لِيُنْفِقْ ذُو سَعَةٍ مِنْ سَعَتِهِ وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ فَلْيُنْفِقْ مِمَّا آتَاهُ اللَّهُ لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاهَا}

ترجمہ:ہر وسعت رکھنے والا اپنی وسعت کے مطابق نفقہ دے۔ اور جس شخص کے لیے اس کا رزق تنگ کردیا گیا ہو، تو جو کچھ اللہ نے اسے دیا ہے وہ اسی میں سے نفقہ دے، اللہ نے کسی کو جتنا دیا ہے، اس پر اس سے زیادہ کا بوجھ نہیں ڈالتا

{وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ}

ترجمہ:اور جن عورتوں کو طلاق دے دی گئی ہو وہ تین مرتبہ حیض آنے تک اپنے آپ کو انتظار میں رکھیں

وفی سنن أبي داؤد، النکاح / باب في حق المرأۃ علی زوجها (۱؍۲۹۲ رقم: ۲۱۴۴)

عن بهز بن حکیم عن أبیه عن جده معاویة القشیري قال: أتیت رسول اللّه صلی اللّه علیه وسلم، قال: فقلت: ماتقول في نساءنا؟ قال: أطعموهن مما تأکلون، واکسوهن مما تکتسون، ولا تضربوهنّ ولا تقبحوهنّ۔

وفی الفتاوى الهندية۔الباب الثالث عشر فی العدة (1/ 526)

إذا طلق الرجل امرأته طلاقا بائنا أو رجعيا أو ثلاثا أو وقعت الفرقة بينهما بغير طلاق وهي حرة ممن تحيض فعدتها ثلاثة أقراء سواء كانت الحرة مسلمة أو كتابية كذا في السراج الوهاج.

وفی الخانیة مع الهندیة ۱:؍۴۲۶، کذا في الفتاویٰ التاتارخانیة: ۵؍۳۹۹ :

ثم النفقةإنما تجب علی قدر یسار الرجل وعسرته۔

وفی البحر الرائق ، کتاب الطلاق / باب النفقۃ ۴ ؍ ۱۹۸

ونفقة المعتدة کنفقة النکاح ۔ 

وفی الهدایة،  ۲/ ۴۳۸

 وإن نشزت فلا نفقة لها حتی تعود إلی منزله

وفی  الفتاویٰ الهندیة ، کتاب الطلاق۔الباب السابع عشر۔ الفصل الثالث في نفقة المعتدة ۱ ؍ ۵۵۸

ویعتبر في هذه النفقة ما یکفیها وهو الوسط من الکفایة وهی غیر مقدرة ؛ لأن هذه النفقة نظیر نفقة النکاح فیعتبر فیها ما یعتبر في نفقة النکاح

وایضا فی الفتاوى الهندية ۔ الباب السابع عشر فی النفقة۔ الفصل الثالث في نفقة المعتدة (1/ 557)

المعتدة عن الطلاق تستحق النفقة والسكنى كان الطلاق رجعيا أو بائنا، أو ثلاثا حاملا كانت المرأة، أو لم تكن كذا في فتاوى قاضي خان الأصل أن الفرقة متى كانت من جهة الزوج فلها النفقة

وفی الفتاوى الهندية۔ الباب السابع عشر فی النفقة۔ الفصل الاول في نفقة الزوجة (1/ 549)

والنفقة الواجبة المأكول والملبوس والسكنى أما المأكول فالدقيق والماء والملح والحطب والدهن كذا في التتارخانية وكما يفرض لها قدر الكفاية من الطعام كذلك من الآدام كذا في فتح القدير ويجب لها ما تنظف به وتزيل الوسخ كالمشط والدهن، وما تغسل به من السدر والخطمي، وما تزيل به الدرن كالأشنان والصابون على عادة أهل البلد، وأما ما يقصد به التلذذ والاستمتاع مثل الخضاب والكحل فلا يلزمه بل هو على اختياره إن شاء هيأه لها، وإن شاء تركه، فإذا هيأه لها فعليها استعماله، وأما الطيب فلا يجب عليه منه إلا ما يقطع به السهوكة لا غير ويجب عليه ما يقطع به الصنان، ولا يجب الدواء للمرض، ولا أجرة الطبيب، ولا الفصد، ولا الحجامة كذا في السراج الوهاج وعليه من الماء ما تغسل به ثيابها وبدنها من الوسخ كذا في الجوهرة النيرة وفي فتاوى أبي الليث – رحمه الله تعالى – ثمن ماء الاغتسال على الزوج، وكذا ماء وضوئها عليه غنية كانت أو فقيرة، وفي الصيرفية: وعليه فتوى مشايخ بلخ وفتوى الصدر الشهيد – رحمه الله تعالى – وهو اختيار قاضي خان كذا في التتارخانية في باب الغسل وأجرة القابلة عليها حين استأجرتها، ولو استأجرها الزوج، فعليه، وإن حضر بلا إجارة فلقائل أن يقول: على الزوج؛ لأنه مؤنة الوطء وجوز أن يقال: عليها كأجرة الطبيب كذا في الوجيز للكردري.

وفی رد المحتار / باب النفقة، مطلب: لا تصیر النفقة دینًا ۲؍۶۸

والنفقة لا تصیر دینًا إلا بالقضاء أو الرضاء أي اصطلاحهما علی قدر معین، أصنافًا أو دراهم

وایضا فی الشامیة:کتاب الطلاق، باب النفقة، مطلب في نفقة المطلقة،  ۳/ ۶۰۹، ایچ ایم سعید۔

نفقة العدة کنفقة النکاح۔ وفي الذخیرة: وتسقط بالنشوز، وتعود بالعود۔

وفی  رد المحتار: باب النفقة:۲ / ۸۸۸

قال في البحر: واتفقوا على وجوب نفقة الموسرين إذا كانا موسرين، وعلى نفقة المعسرين إذا كانا معسرين، وإنما الاختلاف فيما إذا كان أحدهما موسرا والآخر معسرا۔

 فعلى ظاهر الرواية الاعتبار لحال الرجل، فإن كان موسرا وهي معسرة فعليه نفقة الموسرين، وفي عكسه نفقة المعسرين. وأما على المفتى به فتجب نفقة الوسط في المسألتين وهو فوق نفقة المعسرة ودون نفقة الموسرة

فتاوی رحیمیہ میں ہے: جلد 8/ 433

لہذاعورت عدت طلا ق میں  شوہر کے یہاں  رہے یا شوہر کی مرضی سے ، یا حق شرعی یا شرعی عذر کی وجہ سے کسی ا ور جگہ رہے تب تو خرچ وغیرہ کی حق دار ہے لیکن اگر عوت بلا عذر اور بلا وجہ شرعی شوہر کی ناشزہ (نافرمان )ہو کر،شوہر کی مرضی کے خلاف چلی جائے تو خرچ وغیرہ کی حق دار نہیں  ۔

 فتاوی دار العلوم دیوبند  میں ہے:  7/ 165

بہ نیت  طلاق فارغ خطی دیدینے سے اس کی زوجہ پر ایک طلاق بائنہ واقع ہوتی ہے اور اس کا حکم یہ ہے کہ رجعت بلا نکاح درست نہیں ہے اور نکاح  بدون حلالہ کے اس سے جائزہے۔

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ : محمد عثمان غفرلہ ولوالدیہ

نور محمد ریسرچ سینٹر

دھوراجی کراچی

۱۱/۶/۱۴۴۱ھ

2020/02/06

اپنا تبصرہ بھیجیں