مینیجر کازائد قیمت پر فروخت کرنا

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارےمیں کہ :

ایک شخص ایک کمپنی  میں ملازم  ہے ملازمت یہ ہے کہ کمپنی کی اشیاء کو فروخت کرنا ہے ،ان کا ایک مینیجر ہے جو اس ملازم کو کہتا ہے تم ان اشیاء کو ایک سو دس میں فروخت کرو اور کمپنی کے حساب میں ایک سو آٹھ لکھو اور جو دو روپے زیادہ ہے وہ مینیجر کےپاس جاتے ہیں ،کمپنی کو ایک سو آٹھ ورپے جاتے ہیں ،کمپنی کی طرف سے حکم یہ ہے کہ اس کوایک  سوآٹھ میں فروخت کرو۔کیا ایساکرنا درست ہے ؟

                                                                                                 سائل:محمد زبیر

الجواب حامدا ومصلیا

واضح رہے کہ کمپنی کی طرف سے جو قیمت فروخت مقرر ہوتی ہےملازمین اسی قیمت پر فروخت کرنے کےپابندہیں اس سے زائد نفع لےکراس کو خود رکھنا اور کمپنی کو نہ دینا جائز نہیں ، لہذامنیجرصاحب  کا دو (2)روپے اوپر لینا درست نہیں ،سراسردھوکا  فریب اور غلط بیانی ہے اس سےاجتناب ضروری ہے۔

 لیکن اگر زائد قیمت میں فروخت کیا ہو تو زائد قیمت مینیجرکے لیےاس وقت حلال ہوگی جبکہ مالک سے یہ معاھدہ ہوا ہوکہ زائد قیمت میں رکھونگا یا یہ متعارف ہو کہ اس طرح زائد قیمت ملازمین رکھتےہیں اور اصل قیمت کمپنی کو مل جاتی ہے۔

شرح المجلة للأتاسی،تحت شرح المادة ۱۴۶۷ :۴/۴۱۵الکتب العلمیة

وانما یجب للوكیل اجر علی عمله ان شرط له ذلک صریحا او بدلالة العرف والعادة بان کان الوكیل ممن جرت عادته ان یعمل باجرة کالدلال والسمسار وكتجار زماننا فان العرف والعادة قد جرت بان احدهم یعمل لغیره باجرة یسمونها معلوما وکوکلا الدعاوی فانهم كذالك فان مثل هذا یستحق اجرة مثل عمله علی ما بینا  وان لم یشترط له ذلک صریحا لان المعروف کالمشروط

الفتاوى الهندية : کتاب الاجارة، باب بیان حکم اجیر الخاص والمشترك ۴/۵۷۰  قدیمی

والأجير الخاص من يكون العقد واردا على منافعه ولا تصير منافعه معلومة إلا بذكر المدة أو بذكر المسافة. كذا في التبيين.وحكم أجير الوحد أنه أمين في قولهم جميعا…….

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

محمد رفیق غفرلہ ولوالدیہ

نور محمد ریسرچ   سینٹر  

دھوراجی کراچی

16جمادی الاولی1441

12جنورى 2020

اپنا تبصرہ بھیجیں