مریض گاہک سواری سےکمیشن لینا

دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر:199

السلام علیکم !

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام ان مسائل کے بارے میں

1:  آج کل بعض ڈاکٹر حضرات ٹیکسی اور رکشہ ڈرائیور کو کہتے ہیں کہ جو مریض تمہارے پاس سواری کے لیے آئےاسےہمارے ہسپتال میں لے آنا ہم تمہیں کمیشن دیں گے تو ڈرائیور سواری سے عام کرایہ بھی لیتے ہیں اور جس ڈاکٹر کے پاس ترغیب دے کر مریض کو پہنچادیں اس سے کمیشن بھی لیتے ہیں۔

کیا ڈاکٹر حضرات کا ٹیکسی والوں کے ساتھ اس طرح کمیشن کا معاملہ کرنا اور ٹیکسی والوں کا دو طرف سے رقم لینا جائز ہے یا  نہیں ۔مریض کو معلوم ہو یا نہ ہو دونوں صورتوں کا حکم واضح کریں ۔

2:  بعض ٹھیکے دار تعمیراتی کام کرنے والے اپنے گاہک کو کسی معین آئرن کی دوکان پر بھیجتے ہیں اور اسی طرح ورکشاپ کے مستری گاڑی کے مالک کو کسی معین آٹو کی دوکان سے سامان خریدنے کا کہتے ہیں اور اس دوکان دار سے گاہک بھیجنے پر کمیشن لیتے ہیں ۔

1:  کبھی خود گاہک کے ساتھ جاتے ہیں ۔

2:  کبھی گاہک کو اکیلے بھیجتے ہیں ۔

3:  کبھی گاہک سے پیسے لے کر خود سامان لاتے ہیں ۔

ان صورتوں میں دوکان دار اور ٹھیکے دار ۔۔۔۔۔۔۔دوکان دار اور مستری کا آپس میں اس طرح کمیشن کا لین دین کرنا جائز ہے یا نہیں گاہک کو ان کے معاملہ کا علم ہو یا نہ ہو  ہر صورت کا حکم تحریر فرما دیں۔

3:  ایک بس  کراچی سے چلتی ہے مثلاً صادق آباد آکر ٹھہر جاتی ہے اور کرایہ بھی ان سواریوں سے صادق آباد کا لیا ہوا ہوتا ہے اور ان میں سے کچھ سواریاں آگے لاہور جانے والی ہوتی ہیں۔ یہ بس والے ان سواریوں کو دوسری یعنی لاہور جانے والی بس میں بٹھاتے ہیں اور دوسری بس والوں سے کمیشن لیتے ہیں کہ ہم نے سواریاں مہیا کی ہیں ۔

کیا اس طرح ان کا اس طرح بس والوں سے کمیشن کا معاملہ کرنا صحیح ہے یا نہیں؟

بینوا توجروا

حضرت شیخ الاسلام دامت برکاتہم کا مصدقہ جواب مطلوب ہے۔

بہت نوازش  ہوگی۔

سائل عبد الوکیل پانیزئی

فاضل وفاق المدارس العربیہ پاکستان

2ربیع الاول 1433ھ

الجواب حامداً و مصلیاً

1 تا 3 صورت مسؤلہ میں ٹیکسی اور رکشہ ڈرائیور کا مریض کو ترغیب دے کر ڈاکٹر کے پاس لانا اور ڈاکٹر سے اس کا کمیشن وصول کرنا ۔ اسی طرح ٹھیکے دار کا اپنے گاہک کو کسی معین آئرن کی دوکان پر بھیج کر کمیشن لینا اور ورکشاپ کے مستری کا گاڑی کے مالک کو کسی معین آٹو کی دوکان سے سامان خرید نے کا کہہ کر دوکان کے مالک سے کمیشن لینا ۔اسی طرح بس والوں کا لاہور جانے والی سواریوں کا ترغیب دے کر کسی خاص بس میں سوار کرانا اور اس بس والوں سے کمیشن وصول کرنا ۔

یہ وصول کرنا کچھ شرائط کے ساتھ جائز ہے ۔جن کی تفصیل درج ذیل ہے:

1:  مریض ،گاہک، گاڑی کے مالک اور سواریو ں کے ساتھ کسی قسم کا دھوکا نہ ہو اور نہ انہیں ضرر رسانی ہو بلکہ جس ڈاکٹر کے پاس لے جایا جارہا ہے وہ اپنے پیشے میں ماہر ہو، ایسے ہی جس سامان کی وقعتاً ضرورت ہو وہی منگوایا جائے محض کمیشن کی خاطر بلاضرورت ساما ن نہ منگوایا جائے اور جس گاڑی میں سواریوں کو ترغیب دے کر سوار کیا جائے اس میں وہ سہولیات موجود ہوں جن کا ان سے ذکر کیا گیا ہے ۔

2:  کمیشن پہلے سے طے ہو ، طے کیے بغیر کمیشن لینا دینا جائز نہیں ۔

3:مریض ،گاہک،گاڑی کے مالک اور سواریوں کو صرف ترغیب دی جائے ،مریض کو اسی ڈاکٹر کے پاس جانے پر مجبور نہ کیا جائے ۔اسی طرح گاہک اور گاڑی کے مالک کو اسی دوکان سے سامان خریدنے پر مجبور نہ کیا جائے ایسے ہی سواریوں کو اسی بس کے ذریعے سفر اختیار کرنے پر مجبور نہ کیا جائے بعض گاڑی والے ایسا کرتے ہیں کہ جانا تو انہوں نے صادق آباد تک ہوتا ہے مگر لاہور جانے والی سواری کو بھی بٹھا لیتے ہیں اور اس سے لاہور کا کرایہ بھی وصول کرتے ہیں پھر صادق آباد جاکر اس کو بغیر اس کی رضامندی کے کسی بس میں سوار کرادیتے ہیں وہ غریب کرایہ دینے کی وجہ سے مجبور ہوتا ہے یہ ہرگز جائز نہیں۔

4:  ڈاکٹر کمیشن دینے کی وجہ سے مریض سے معمول کی فیس سے زیادہ وصول نہ کرے اسی طرح دوکاندار کمیشن  دینے کی وجہ سے وہ سامان مارکیٹ سے زیادہ ریٹ پر فروخت نہ کرے ، ایسے ہی بس والے کمیشن دینے کی وجہ سے ان سواریوں سے عام کرائے سے زیادہ کرایہ وصول نہ کریں ۔ اگرڈاکٹڑ دوکاندار اور بس والے کمیشن کی رقم بھی فیس،سامان کی قیمت اور کرائے میں شامل کر کے اس سے زیادہ فیس لے یا سامان کو مارکیٹ ریٹ سے زیادہ پر بیچنے یا معمول کے کرائے سے زکمیادہ کر ایہ وصول کریں تو اس صورت میں کمیشن لینا درست نہ ہوگا۔

ان شرائط کی رعایت کرتے ہوئے کمیشن لینا جائز ہے اگر ان شرائط کی خلاف ورزی کی گئی تو کمیشن لینا جائز نہ ہوگا ۔

الفقہ الاسلامی و ادلتہ (5/21)

بیع السمسرۃ: السعسرۃ: ھی الوساطۃ بین البائع و المشتری لاجراء البیع و السعسرۃ جائزۃ، و الاجر الذی یاخذہ السمسار حلال، لانہ اجر علی عمل وجھد معقول

الدر المختار (4/560)

و اما الدلال فان باع العین بنفسہ باذن ربھا فاجرتہ علی البائع و ان سعی بینھما و باع المالک بنفسہ یعتبر العرف و تمامہ فی شرح الرھبانیۃ

حاشیۃ ابن عابدین تحتہ

(قولہ: فاجرتہ علی البائع ) و لیس لہ اخذ شیء من المشتری لانہ ھو العاقد حقیقۃ شرح الوھبانیۃ و ظاھرہ انہ لا یعتبر العرف ھنا لانہ لا وجہ لہ۔

(قولہ: یعتبر العرف) فتحب الدلالۃ علی البائع او المشتری او علیھما بحسب العرف جامع الفصولین۔

و اللہ تعالی اعلم بالصواب

عبید اللہ انور عفا اللہ عنہ

دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی

3/جمادی الاخری/1433ھ

25/اپریل/2012ء

پی ڈی ایف فائل میں فتویٰ حاصل کرنےکےلیےلنک پرکلک کریں:

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/permalink/779217325780848/

اپنا تبصرہ بھیجیں