مرے ہوئے کی قسم کھائی پھر توڑ دی تو کفارے کا حکم

السلام علیکم ورحمة الله وبركاتہ
سوال: اگر کوئی کسی مرے ہوئے کی قسم کھائے کہ میں فلاں کام نہیں کروں گا پھر ایک وقت ایسا آیا کہ اس کو وہ کام مجبوراً کرنا پڑا تو اب قسم کے متعلق کیا حکم ہوگا؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاتہ
الجواب باسم ملهم الصواب
واضح رہے کہ قسم صرف اللہ کی کھانی چاہیے ۔ اللہ تعالی یا قرآن کی قسم کھائی تو اسی کے توڑنے سے کفارہ لازم آتا ہے ۔ غیر اللہ کی قسم کھانا جائز نہیں ہے۔ لہذا ایسی قسم توڑنے سے کفارہ لازم نہیں،بلکہ ایسا کرنے پر استغفار کرنا لازم ہے۔
**********
حوالہ جات:
حدیثِ مباركہ سے :
1۔ان رسول الله صلى الله عليه وسلم ادرك عمر وهو في ركب وهو يحلف بابيه فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ان الله ينهاكم ان تحلفوا بابائكم ليحلف وحالف بالله اوليسكت
(ترمذيشریف:: 1390)
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر کو ایک قافلے میں باپ کی قسم کھاتے ہوئے پایا تو فرمایا :اللہ تعالی تمہیں اپنے آباء کی قسم کھانے سے منع فرماتا ہے اگر کوئی قسم کھانا چاہے تو اللہ ہی کی قسم کھائے ورنہ خاموش رہے۔

**********
کتب فتاوی سے:
2۔(قوله: لايقسم بغير الله تعالى) عطف على قوله والقسم بالله تعالى: أي لاينعقد القسم بغيره تعالى أي غير أسمائه وصفاته ولو بطريق الكناية كما مر، بل يحرم كما في القهستاني، بل يخاف منه الكفر في نحو وحياتي وحياتك كما يأتي”
(الدر المختار مع ردالمحتار / 712)
اردو فتاوی سے:
3۔خدا کے سوا کسی اور کی قسم کھانے سے قسم نہیں ہوتی جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم،کعبہ کی قسم،اپنی آنکھوں کی قسم،اپنی جوانی کی قسم،اپنے ہاتھ پیروں کی قسم ،اپنے باپ کی قسم،اپنے بچے کی قسم،اپنے پیاروں کی قسم،تمہارے سر کی قسم،تمہاری جان کی قسم،تمہاری قسم،اپنی قسم اسطرح قسم کھا کر پھر اس کے خلاف کرے تو کفارہ نہ دینا پڑے گا گا سوائے خدا کےکسی اور کی قسم کھانا بڑا گناہ ہے۔حدیث پاک میں اس کی بڑی ممانعت آئی ہے۔ اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کی قسم کھانا شرک کی بات ہے ۔اس سے بہت بچنا چاہیے۔
( بہشتی زیور :: 243/ حصہ سوم)

واللہ سبحانہ اعلم

4 ربیع الاول 1444ھ
1 اکتوبر، 2022ء

اپنا تبصرہ بھیجیں