مسجد پر مینارہ بنانا

فتویٰ نمبر:1097

1.مسجد پر مینارہ بنانا

2. دستار بندی کا حکم

سوال:محترم جناب مفتیان کرام! 

کیا مسجد پر مینارہ بنانااور دستار بندی کرنا بدعت ہے؟

والسلام

الجواب حامداو مصليا

مذکورہ سوال کا جواب جاننے سے پہلے تمہیداً بدعت کی تعریف جان لینا ضروری ہے۔ 

بدعت، عبادت کے اندر ہر اس نیا طریقہ ایجاد کرنے کو کہا جاتا ہے جو ثواب کی نیت سے رسول اللہ ﷺ ، خلفائے راشدین ، صحابہ کرام ، تابعین و تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین کے بعد اختیار کیا گیا ہو اور ان حضرات کے عہد میں اس کا سبب ہونے کے باوجود نہ قولاً ثابت ہو، نہ فعلاً ، نہ تقریراً، نہ صراحۃً، نہ اشارۃً۔

اس تعریف کو سمجھ لینے کے بعد اب اصل سوال کا جواب سمجھیں۔

مسجد کی علامت کے طور پر مینار بنانا بہتر ہے بشرطیکہ تعمیر میں فضول خرچی سے پرہیز کیا جائے اور بقدر ضرورت بنایا جائے۔مینارہ بنانے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دور سے آنے والے مسافروں کو بھی معلوم ہو جائے کہ یہاں مسجد ہے۔ لیکن مینار بنانا شرعاً واجب یا ضروری نہیں ہے۔ نہ ہی اس کو عبادت سمجھ کر بنایا جاتا ہے۔ اس کی مثال بالکل ایسے ہے جیسے کسی مقام کی سمت کی جانب لوگوں کی راہ نمائی کے لیے راستوں میں سائن بورڈز لگائے جاتے ہیں جس سے اس مقام تک پہنچنا آسان ہو جاتا ہے۔ اسی طرح مینارہ کی وجہ سے دور سے آنے والے لوگ مسجد کو پہچان جاتے ہیں۔

واما بناء منارۃ المسجد من غلۃ الوقف أن کان بناؤھا مصلحۃ للمسجد بأن یکون اسمع فلا بأس بہ، وإن کان أسمع کل اھل المسجد الأذان بغیر منارتہ کذا فی التمرتاشی(الفتاوی العالمگیری، کتاب الکراھیۃ ۳۲۲/۵،رشیدیہ)

أیجوز أن یبنی من غلتہ منارۃ؟ قال فی الخانیۃ معزیا إلی ابی بکر البلخی : أن کان ذلک من مصلحہ المسجد بأن کان أسمع لھم فلا بأس بہ،وان کان بحال یسمع الجیران الأذان بغیر منارۃ فلا أری لھم أن یفعلوا ذلک( البحر الرائق: کتاب الوقف، ۳۶۰/۵،رشیدیہ)

آپ کا دوسرا سوال دستار بندی کے متعلق ہے اس کی وضاحت یہ ہے کہ سند اور اجازت کا دینا قرون اولیٰ سے ہی ثابت ہے۔اگر سند اور اجازت کا طریقہ نہ ہوتا تو دین کے تمام معاملات مخلوط ہو جاتے۔اسی سند اور اجازت کی ایک صورت دستار ہے۔علما چونکہ انبیاء کے وارث ہیں توان کے قول و فعل کو لوگ اتباع کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ چناچہ اساتذہ کی طرف سے کسی کو دستار دینے کے یہی معنی ہیں کہ یہ شخص ہمارے نزدیک اپنی قابلیت اور استعداد کے اعتبار سے اس درجہ کا ہوگیا ہے کہ لوگ اس کے قول و فعل پر اعتماد کر سکیں۔ تو دستار بندی کا ایک فائدہ تو یہ ہوا مسلمانوں پر اس کی قابلیت ظاہر ہو جائے تاکہ ان کو اتباع کے لیے راہ نما مل سکے نیز دسرے طلباء کو بھی اس سے ترغیب اور شوق پیدا ہوتا ہے۔ 

اور اس کو بدعت اس وجہ سے نہیں کہا جا سکتا کہ نبی کریم ﷺ سے شکریہ ،انعام یا کسی ذمہ داری سونپنے کے موقع پر خلعت اور ملبوس کا عطا کرنا ثابت ہے۔

نبی کریم ﷺ جب کسی کو مہم پر بھیجتے یا کسی کو حاکم بناتے یا گورنر بناتے تو اس کو بھی عمامہ باندھا کرتے تھے۔یعنی یہ بتانے کے لیے کہ تمہارے اوپر ذمہ داری ڈالی جارہی ہے۔ 

حضرت امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولﷺ کسی کو کسی مقام کا حوالہ یا گورنر بناتے تو اس کے سر پر عمامہ باندھتے اور اس کے کنارے کو دائیں بائیں کان کی طرف چھوڑ دیتے۔(زرقانی: ۱۳/۵)

حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کو جب ایک سریہ پر امیر مقرر کیا ۔تو ان کی دستار بندی کی(تاریخ ابن کثیر:9 ہجری تا وفات رسولﷺ، ۲۱۸/۵)

اما التعمیم للتبرک فیدل علیہ ما رواہ ابو داؤد عن عبد الرحمن بن عوف و فی اسنادہ شیخ مجھول و کذا یدل علیہ ما رواہ ابو نعیم ان رسول اللہﷺ عمم علی بن ابی طالب فی غدیر خم، و ما رواہ عن عمار بن یاسر ان رسول ﷺ عمم علیا حین بعثہ الی خیبر،وکذا التعمیم لاظہار الاعتماد جائز ایضا یدل علیہ ما رواہ البخاری ان النبیﷺ عند الھجرۃ لم ینکر علی تعمیمھم عبداللہ بن ابی،(والتفصیل فی منھاج السنن شرح جامع السنن للترمذی ۲۱۲/۵)

فقط

و اللہ سبحانہ اعلم

قمری تاریخ:28 ربیع الاول 1440ھ

عیسوی تاریخ:7 دسمبر 2018ء

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں