حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
(سکریٹری وترجمان آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ)
گزشتہ دنوں قتل بہ جذبۂ رحم سے متعلق سپریم کورٹ کا جو فیصلہ ہوا ہے، اس سے مصنوعی آلۂ تنفس کا مسئلہ بھی جڑا ہوا ہے کہ کن حالات میں ان آلات کو لگانا واجب ہوگا اور کن حالات میں نہیں؟ اس سلسلے میں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ جسم کے بعض اعضاء وہ ہیں، جن پر حیات انسانی کا باقی رہنا موقوف ہے، ہاتھ کٹ جائے یا پاؤں ٹوٹ جائے تو انسان زندہ رہ سکتا ہے؛ لیکن دل اپنی حرکت روک لے اور دماغ اپنا کام کرنا بند کردے تو انسان زندہ نہیں رہ سکتا، یہی وجہ ہے کہ بہت سے اعضاء کو آرام کی مہلت ملتی ہے، اگر انسان لیٹ جائے تو ہاتھ پاؤں کو تھوڑی دیر آرام کرنے کا موقع میسر آجاتا ہے، اگر انسان فاقہ کرلے تو شاید معدہ کو وقفہ استراحت مل جاتا ہو، انسان سو جائے تو کان اور آنکھ بھی آرام کرتے ہیں اور دماغ کے اس حصہ کو بھی وقفہ سکون ہوتا ہے، جس کا تعلق فکر و تدبر سے ہے لیکن اگر دل سوجائے اور دماغ کا وہ حصہ جو انسانی زندگی کو کنٹرول کرتا ہے اور جس کا مرکز اطباء کی تحقیق کے مطابق بھیجے کا آخری حصہ ہوتا ہے، اگر وہ جسم سے بیوفائی کرنے لگے تو پھر انسان کے لئے موت کے منہ میں جانے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں اس لئے انسانی زندگی کی بقاء میں دل و دماغ کا بڑا اہم رول ہے، دل پورے جسم میں خون کی ترسیل کرتا ہے اور اس دوڑتے ہوئے خون کی سواری پر آکسیجن پورے جسم کا سفر طے کرتی ہے اور ایک ایک عضو اور خلیات تک پہنچتی ہے کیوںکہ آکسیجن کے بغیر نہ انسان کا پورا وجود زندہ رہ سکتا ہے اور نہ اس کا کوئی جز، اس لئے انسان کے وجود اور بقاء کے لئے دل و دماغ کے صحت مند ہونے کی بڑی اہمیت ہے۔
اللہ نے ہر بیماری کے لئے علاج بھی رکھا ہے، یہ علاج نباتاتی، جماداتی یا حیوانی اجزاء کے ذریعہ بھی ہوتا ہے اوراعضاء کی مصنوعی شکل کے ذریعہ بھی، جیسے مصنوعی پاؤں لگائے جاتے ہیں، مصنوعی قلب اور پھیپھڑا بنانے کی کوشش ہورہی ہے اور ممکن ہے کہ اللہ کی مشیت سے اس میں کامیابی حاصل ہوجائے، تو یقیناً یہ طبی دنیا کا بڑا کارنامہ ہوگا، علاج کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ بعض اعضاء کے افعال کو کسی مصنوعی آلہ اور خارجی ذریعہ سے انجام دیا جائے، جیسے گردہ کے عمل کو انجام دینے کے لئے ڈائلیسس کرایا جاتا ہے، قلب کے آپریشن کے دوران ایک خارجی آلہ کے ذریعہ خون کی ترسیل اور پمپنگ کا طریقۂ کار اختیار کیا جاتا ہےالبتہ دماغ کے کام کے لئے غالبا اب تک کوئی مصنوعی متبادل دریافت نہیں ہوسکا ہے اور شاید یہ دشوار بھی ہو؛ کیوںکہ قلب ہو یا پھیپھڑا، یہ ظاہری اور مادی افعال کو انجام دیتا ہے، جیسے خون کو پھینکنا یا خون کے زہر آلود مادوں کو چھاننا وغیرہ، اور دماغ معنوی امور کو انجام دیتا ہے، جیسے پورے جسم کے پیغام کو وصول کرنا، ضرورت کے مطابق جسم کے مختلف حصوں کو احکام دینا، سوچنا، اور غور و فکر کرنا، فیصلے کرنا، شکلوں اور باتوں کو محفوظ کرنا، یہ سب معنوی امور ہیں اور بظاہر مادہ و احساس کے دائرہ سے باہر ہیں۔
خارجی آلات کے ذریعہ کسی اندرونی عضو کے افعال کو انجام دینے کی ایک صورت ’مصنوعی آلۂ تنفس ‘ کی ہے، جس کو Ventilator کہتے ہیں، اس کے ذریعہ مصنوعی طور پر سانس کی آمدو رفت اور قلب کی حرکت کو باقی رکھا جاتا ہے، یہ نہایت گراں علاج ہے اور افسوس کہ آج کل ڈاکٹروں اور اسپتالوں نے اسے پیسہ کمانے کا آسان اور سستا ذریعہ بنالیا ہے، وینٹلیٹر کی ضرورت ختم ہوجانے کے باوجود اس کو باقی رکھا جاتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ پیسے حاصل کئے جاسکیں، اور ایسا تو بہت زیادہ ہوتا ہے کہ مریض کی موت ہوچکی ہے، یا اس کا دماغ مرچکا ہے لیکن وینلیٹر نکالا نہیں جاتا تاکہ بل میں اضافہ ہواور مریض کے ورثہ سے زیادہ سے زیادہ پیسے حاصل کئے جائیں، اب تو بعض دفعہ یہ بھی سننے میں آتا ہے کہ سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے بعض شخصیتوں کی موت کا اعلان بعض معاملات کے طے ہونے تک موقوف رکھا جاتا ہے، اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ بعض دفعہ ورثہ پیسے بچانے کے لئے مصنوعی آلۂ تنفس کو نکال دینے کے خواہاں ہوتے ہیں، حالاں کہ اِس آلہ کی برقراری سے زندگی کے بحال ہونے کا اور صحت کے عود کر آنے کا امکان ہوتا ہے اور مریض کے پاس اتنی املاک موجود ہوتی ہیں کہ اس کے علاج کو جاری رکھا جاسکے۔
اس لئے یہ مسئلہ بڑا اہم ہے اور آج کل تیمار داروں اور ڈاکٹروں کی طرف سے بہ کثرت یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ اس طرح کے مصنوعی آلۂ تنفس کو کب تک لگائے رکھنا واجب ہوگا اور کب علاحدہ کردینا درست ہوگا ؟ اس سلسلہ میں اہل علم کے یہاں یہ بات بھی قابل غور سمجھی گئی ہے کہ موت کا اطلاق کس کیفیت پر ہوگا،موت کے بعد یقیناً اس آلہ کا نکال دینا واجب ہوگا اس لئے کہ شریعت نے مردہ کی تدفین میں عجلت کا حکم دیا ہے اور اس کے علاوہ مرنے کے بعد بھی آلہ کو باقی رکھنا اسراف و فضول خرچی بھی ہے اور دوسرے مریض جن کو اس آلہ کی ضرورت ہے، ان کے لئے دشواری کا باعث بھی ہے۔
ہمارے فقہاء اور قدیم اطباء نے عام طور پر ظاہری علامتوں پر موت کے واقع ہونے کا فیصلہ کیا ہے اور عام حالات میں یقیناً یہ علامتیں فیصلہ کن ہوتی ہیں لیکن بعض اوقات ان علامتوں کا دریافت کرنا دشوار ہوجاتا ہے اور زندگی کی رمق کو معلوم کرنے کے لئے جو آلات رکھے گئے ہیں، جیسے تھرمامیٹر کے ذریعہ حرارت، یا بلڈ پریشر کے آلات پیمائش کے ذریعہ دوران خون کی کیفیت کو معلوم کرنا،یا اس طرح کے دوسرے آلات، مصنوعی وسائل کے استعمال کے دوران وہ ظاہر نہیں ہوپاتے تو ایسی صورت میں یہ مسئلہ کھڑا ہوتا ہے کہ طبی اعتبار سے موت کی حقیقت کیا ہے ؟ کیا دماغ کے مرجانے سے موت ہوجاتی ہے، یا قلب کا اپنے عمل کو چھوڑ دینے پر موت کا اطلاق ہوتا ہے،یا پھیپھڑے کام کرنا بند کردیں، یہ موت ہے، یا اعضاء یا خلیات کی موت کے بعد ہی انسان مردہ سمجھاجائے گا ؟ یہ موجودہ دور کا ایک اہم مسئلہ ہے۔
جہاں تک اعضاء میں زندگی کے باقی رہنے کی بات ہے تو وہ تو حقیقی موت طاری ہونے کے بعد بھی کچھ لمحات تک باقی رہتی ہے اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ جانور ذبح کردیا جاتا ہے لیکن ذبح کا عمل مکمل ہونے کے بعد بھی کچھ دیر تک اعضاء میں حرکت باقی رہتی ہے، جسے ’حرکتِ مذبوحی ‘کہا جاتا ہے اور اعضاء کے بھی مرنے کے بعد خلیات کی موت ہوتی ہے اس لئے اعضاء اور خلیات کی موت سے انسانی وجود کا تعلق نہیں، یعنی اگر دماغ اور قلب مرچکے ہوں لیکن اعضاء میں زندگی کی حرارت موجود ہو تو ان کے سرد ہونے تک مصنوعی آلۂ تنفس کو باقی رکھنے کی ضرورت نہیں . پھیپھڑے، دل اور دماغ کی زندگی اہم ہے اور یہ بڑی حد تک ایک دوسرے سے مربوط ہے، دل پھیپھڑے کو خون دیتا ہے اور ان سے خون وصول کرتا ہے، پھیپھڑے آکسیجن کو جذب کرتے ہیں اور دل تک پہنچاتے ہیں اور دل کے واسطے سے وہ پورے جسم میں گردش کرتا ہے، دماغ کی صورت حال یہ ہے کہ اگر تین چار منٹ اسے آکسیجن نہ ملے تو وہ مرجاتا ہے، پھر جسم کے دوسرے حصوںکے خلیات کا معاملہ یہ ہے کہ اگر وہ ختم ہوجائیں تو دوبارہ بنتے رہتے ہیں، ان میں ختم ہونے اور بنتے رہنے کا عمل جاری رہتا ہے لیکن دماغ کے خلیات ختم ہونے کے بعد بنتے نہیں ہیں اس لئے سوال پیدا ہوا کہ اگر قلب اور دماغ میں سے ایک کی موت ہوجائے اور دوسرا زندہ ہوتو انسان مردہ سمجھاجائے گا یا زندہ اور مصنوعی آلۂ تنفس کو باقی رکھنا واجب ہوگا یا نہیں ؟ طبی اعتبار سے یہ بات بھی قابل غور ہے کہ خود دماغ کے دو حصے ہیں، ایک دماغ علیا، یعنی دماغ کا بالائی حصہ اور ایک دماغ سفلی یعنی دماغ کا نچلا حصہ، اب یہ بات پایۂ تحقیق کو پہنچ گئی ہے کہ اگر خون نہ پہنچنے کی وجہ سے دماغ کے بالائی حصہ کی موت واقع ہوجائے تو جسم کے بہت سے افعال بند ہوجاتے ہیں، نہ انسان بول سکتا ہے، نہ سوچ سکتا ہے، نہ سمجھ سکتا ہے اور نہ دیکھ سکتا ہے؛ لیکن قلب کی حرکت اورسانس کی آمد و رفت باقی رہتی ہے، اس کے معدے تک کھانا پانی پہنچایا جاسکتا ہے، پیشاب پائخانہ کے فطری عوارض جاری رہتے ہیں اس لئے بعض اوقات یہ بات دیکھی جاتی ہے کہ ایک شخص ’کوما ‘کی حالت میں ہے لیکن مہینوں اور بعض دفعہ برسوں جسم سے زندگی کا رشتہ ٹوٹتا نہیں ہے، اس حالت میں وہ یقیناً زندہ ہے البتہ جب دماغ کا نچلا حصہ مرجاتا ہے تو پھر زندگی کے تمام افعال فورا یا تھوڑے وقفہ سے ختم ہوجاتے ہیں اور انسان کے اندر زندگی کی کوئی رمق باقی نہیں رہتی اس لئے اس دور کے اطباء متفق ہیں کہ دماغ کے نچلے حصہ کی موت مکمل موت ہے۔
شرعی نقطۂ نظر یہ ہے کہ:
۱۔ کسی شخص کو مردہ قرار دینے سے شریعت کے بہت سے احکام متعلق ہیں؛ اس لئے جب تک قلب اور دماغ دونوں کی موت واقع نہ ہوجائے، کسی شخص کے مرنے کا حکم جاری نہیں ہوسکتا، نہ اس کے مال سے ورثہ کی ملکیت متعلق ہوگی، نہ وصیت نافذ کی جائے گی، اور اگر مرد ہوتو نہ اس کی بیوی کی عدت شروع ہوگی؛ کیوںکہ یہ احکام ’ یقینی طور پر موت کے واقع ہوجانے ‘ سے متعلق ہیں۔
۲۔ جہاں تک مصنوعی آلۂ تنفس کے لگانے کی بات ہے تو یہ ایک طریقۂ علاج ہے اور علاج کا مدار مریض کی استطاعت اور صلاحیت پر ہے، اگر مریض کے اندر مالی اعتبار سے اس کی استطاعت نہ ہو اور معاشی اعتبار سے وہ اس علاج کا تحمل نہیں کرسکتا ہو تو مصنوعی آلۂ تنفس سے استفادہ نہ کرنا درست ہوگا؛ کیوںکہ شریعت میں علاج کی کسی خاص صورت کو واجب قرار نہیں دیا گیا ہے، اس کی تائید ان فقہاء کے قول سے بھی ہوتی ہے، جن کے نزدیک علاج واجب نہیں ہے؛ بلکہ حنبلی دبستان فقہ میں تو ترک علاج افضل ہے، اور یہی قول شوافع کا بھی ہے؛ کیوںکہ علاج نہ کرانا توکل اور رضا بہ تقدیر سے قریب ہے:
’’قال النووي في المجموع: إن ترک التداوي توکلا فہو فضیلۃ، وکذلک عند الحنابلۃ ترک التداوي أفضل؛ لأنہ أقرب إلی التوکل ولا یجب التداوي ولو ظن نفعہ ألخ‘‘ (الفقہ الإسلامي وأدلتہ: ۲؍۴۷۷)۔
۳۔ اگر مریض کے اندر مصنوعی آلہ سے استفادہ کی مالی استطاعت موجود ہے یا کسی اور وجہ سے اس کی سہولت حاصل ہے اور ماہر اطبا کی رائے میں اس علاج کی وجہ سے مریض کے بچ جانے کا غالب گمان ہے تو ایسے مریض کو آلۂ تنفس لگانا واجب ہے؛ کیوںکہ حتی الامکان جان کی حفاظت واجب ہے اور ’’غالب گمان‘‘احکام شریعت میں یقین کے درجہ میں ہے اورجب جان کا بچنا یقینی ہوتوقدرت کے باوجود اسے نہ بچانا اللہ کی دی ہوئی امانت کے ساتھ خیانت کا مرتکب ہونا ہے۔
۴۔ اگر مصنوعی آلۂ تنفس کے استعمال سے مریض کے بچ جانے کا غالب گمان نہ ہو؛ بلکہ ایک امکان کے درجہ میں ہوتو چاہے صاحب استطاعت ہو، مصنوعی آلۂ تنفس لگانا ضروری نہیں؛ چنانچہ علماء نے لکھا ہے کہ اگر کوئی علاج موہوم درجہ کا ہو، یعنی اس کے نتیجہ خیز ہونے کا کم امکان ہو تو علاج کرانابہتر تو ہے، مگر نہ کرانے کی ممانعت نہیں:
’’بخلاف الموہوم وترکہ لیس محذورا بخلاف المقطوع بہ، بل قد یکون أفضل من فعلہ في بعض الأحوال وفي حق بعض الأشخاص‘‘ (حاشیہ کوکب الدری: ۲؍۳۰)۔
۵۔ اگر دماغ یا قلب نے اپنا کام کرنا چھوڑ دیاہو اور ماہر ڈاکٹروں کی رائے ہو کہ اب فطری نظام تنفس کی بحالی کی امید نہیں تو ورثہ کے لئے بھی اور معالجین کے لئے بھی مصنوعی آلۂ تنفس کا علاحدہ کردینا درست ہے چنانچہ اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے سولہویں سیمنار میں اس موضوع پر جو تجاویز منظور ہوئی ہیں، ان میں ایک یہ ہے:
’’اگر مریض آلۂ تنفس پر ہو اور ڈاکٹروں نے مریض کی زندگی اور فطری طور پر نظام تنفس کی بحالی سے مایوسی ظاہر کردی ہو تو ورثہ کے لئے جائز ہوگا کہ مصنوعی آلۂ تنفس علاحدہ کردیں‘‘۔
نیز مکہ فقہ اکیڈمی نے اپنے دسویں سیمینار منعقدہ ۱۴۰۸ھ میں جو فیصلہ کیا ہے، وہ حسب ذیل ہے:
’’جس مریض کے جسم میں زندگی برقرار رکھنے والے آلات لگے ہوں، اگر اس کے دماغ کی کارکردگی مکمل طور پر بند ہوجائے اور تین ماہر ڈاکٹر اس بات پر متفق ہوں کہ اب دماغ کی یہ کار کردگی دوبارہ بحال نہیں ہوسکتی تو اس مریض کے جسم سے لگے ہوئے آلات ہٹا لینا درست ہے، خواہ ان آلات کی وجہ سے مریض میں حرکت قلب اور تنفس قائم ہو؛ البتہ مریض کی موت شرعا اس وقت سے معتبر مانی جائے گی، جب ان آلات کے ہٹانے کے بعد قلب اور تنفس اپنا کام بند کردیں‘‘
کم و بیش اسی قسم کی تجویز ’’فقہ اکیڈمی جدہ‘‘نے بھی منظور کی ہے۔
بہر حال ان تفصیلات سے جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ ڈاکٹروں کا بلاوجہ مصنوعی آلۂ تنفس لگانے کا مشورہ دینا جائز نہیں، مریض کی موت واقع ہونے کے باوجود محض پیسے کمانے کے لئے مصنوعی آلۂ تنفس کو لگا ئے رکھنا جائز نہیں، اور اس پر حاصل کی جانے والی اجرت حرام ہے، ورثہ کے لئے یہ بات درست نہیں کہ تنفس کے بحال ہوجانے کا ظن غالب ہو اور خود مریض کی املاک سے علاج جاری رکھنا ممکن ہو پھر بھی آلہ کو نکال لیا جائے، یہ مریض کے ساتھ ناانصافی اور جرم ہے، اگر مریض مالی اعتبار سے اس علاج کی صلاحیت نہیں رکھتا تو مصنوعی آلۂ تنفس سے استفادہ کرنا واجب نہیں اور استفادہ نہ کرے تو گنہگار نہیں، ان حدود کو باقی رکھنا نہ صرف انسانی فریضہ ہے؛ بلکہ انسانیت کا بھی تقاضا ہے !
(بصیرت فیچرس