میڈیا میں کام کرنے کا حکم

فتویٰ نمبر:4014

سوال:باجی ایک سٹوڈنٹ کا سوال ہے کہ اگر کوئی میڈیا میں back office job کرے جیسے ایڈورٹائزنگ ، آئی ٹی ڈپارٹمنٹ میں اورا ن کے علاوہ دوسری جازبز جن کا تعلق ٹی وی سے ہو،کیا اس کی اجازت ہے؟

والسلام

الجواب حامداًو مصلياً

تمہیداً عرض ہے کہ اگر یہ سوال طالبہ(فی میل سٹوڈنٹ) کی طرف سے ہے تو پہلے تو یہ جان لیجیے کہ عورت کا نفقہ اس کے والد کے ذمہ ہے اور اگر شادی شدہ ہے تو اس کے شوہر کے ذمہ ہے۔لہٰذا شدید مجبوری کے بغیر خاتون کو ملازمت کے لیے نکلنا جائز ہے ہی نہیں، لیکن اگر وہ شدیدمجبور ہو، تو ان شرائط کی پابندی لازم ہے:

۱)بھر پور لباس اور پردے کے ساتھ نکلے۔

۲) تنہائی اور مردوں کے ساتھ اختلاط سے گریز کریں۔

۳ )اگر کام کے دوران مردوں سے گفتگو اور تبادلۂ خیال کی ضرورت پڑے تو گفتگو میں سختی وتلخی برقرار رکھے ،نرم گفتگو سے پرہیز کرے،ایسی ملازمت اختیار نہ کرے جس میں کسی کے ساتھ تنہائی حاصل ہوتی ہو۔

۴) کام کی نوعیت،تعاوُن، تبادلۂ خیالات یا دیگر مصلحتیں مرد سے گفتگو کا تقاضا کریں تو ضرورتِ شدیدہ کی موجودگی میں بقدرِ ضرورت اس کی گنجائش ہوگی۔(۱)

تمہید کے بعد اب عرض ہے کہ ایڈورٹائز کی نوعیت کیا ہے؟ چنانچہ ایڈورٹائز کے اندر مندرجہ ذیل باتوں کاخیال رکھنا ضروری ہے:

۱)وہ مقاصدِ شرع کے خلاف نہ ہو ورنہ وہ حرام ہے۔

۲)جس چيز کا اعلان کياجارہا ہے وہ خلافِ حقيقت نہ ہو، ورنہ غرر(دھوکا)ہے ،جس کی شریعت میں ممانعت ہے۔(۲)

۳) اعلان وتشہیر میں ممنوعاتِ شرعیہ کا ارتکاب لازم نہ آتاہو، مثلاً کوئی دواساز کمپنی اپنی دوا کی تشہیر کے لیے کسی خاتون کی خدمات حاصل کرے، اوروہ اپنے جسم کے اس حصے کو اخباروں اور ٹی وی پر ظاہر کرے جہاں اس دوا کے مفید اثرات مرتب ہوئے ہوں،اسی طرح موسیقی کا ہونا،ایڈورٹائز کے اندر مرد و زن کا اختلاط ہونا۔(لیکن اگر ایڈورٹائز میں back office job ہے جس میں مردوں کے ساتھ خواتین بھی موجود ہیں اور مرد و زن ضروری مصلحتوں کے علاوہ آپس میں بات چیت سے احتراز کریں تو اس کی گنجائش ہے )(۳)

۴- یہ اعلان وتشہیر کسی حرام وناجائزکام میں واقع ہونے کاسبب وذریعہ نہ بنے،جیسے فلموں کی یا خرید وفروخت کی اُن صورتوں کی تشہیر جو شرعاً ناجائزوحرام ہے ۔

مذکورہ بالا شرائط و ضوابط کا خیال رکھتے ہوئے ایڈورٹائز میں ملازمت جائز ہے۔

اسی طرح میڈیا میں (ٹی وی پر )آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ میں ملازمت کرنا ،اس کی نوعیت بھی معلوم ہونی چاہیے ۔ اگر وہاں غیر شرعی کام ہو رہے ہیں مثلاً : فلمیں بنانا ،گانے ،موسیقی وغیرہ تو اس میں آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ میں ملازمت کرنا بھی گویا گناہ کے کاموں میں تعاون کے زمرے میں آئے گا جو ناجائز ہے۔ (۴)

(۱)وقال علیہ الصلاۃ والسلام : ’’ لیس للنساء نصیب في الخروج إلا مضطرۃ‘‘۔ (۱۶کنز العمال: ۱۶۳، رقم :۴۵۰۴۵)

’’الضرورات تبیح المحظورات ‘‘ ، ما أبیح للضرورۃ یتقدر بقدرہا ‘‘( ترتیب اللآلي في سلک الأمالي: ۱۰۲۸، الأشباہ والنظائر: ۳۰۷ ، ۳۰۸/۱ )

ولا سیما الفقیرات اللاتي لیس لہن خادم ولا من یکفل لرزقہن ونفقتہن فیضطرن إلی الخروج ، وکذلک قد تضطر النساء إلی الخروج للسفر وأمثالہ ، فأباحت الشریعۃ السمحۃ البیضاء الدرجۃ الثانیۃ أیضًا عند الضرورۃ ، فیکون ذلک مقدرًا بقدر الضرورۃ ۔( أحکام القرآن للتہانوي : ۴۷۳/۳)

(۲)’’نہی رسول اللہ ﷺ عن بیع الحصاۃ وبیع الغرر ‘‘ (جامع الترمذي : کتاب البیوع ، باب ما جاء في کراہیۃ بیع الغرر، ۲۳۳/۱)

’’أن رسول اللہ ﷺ نہٰی عن النجش ‘‘(الصحیح ا لمسلم:کتاب البیوع)

(۳)’’ومن الناس من یشتري لہو الحدیث لیضلّ عن سبیل اللّٰہ بغیر علم‘‘ (لقمٰن : ۶)

وقال : ’’ استماع الملاہي معصیۃ ، والجلوس علیہا فسق ، والتلذذ بہا کفر ‘‘ ۔ (نیل الأوطار : ۱۰۳/۸) (فتاویٰ عثمانی : کتاب الاجارۃ، ۳۶۶/۳)

وقال أبوحنیفۃ ’’ لا تجوز الإجارۃ علی شيء من اللہو، والمزامیر، والطبل وغیرہ؛ لأنہا معصیۃ، والإجارۃ علی المعصیۃ باطلۃ‘‘ (تاتارخانیۃ،۱۳۲/۱۵)

۴)’’تعاونوا علی البر والتقوی ولا تعاونوا علی الإثم والعدوان‘‘ (المائدۃ : ۱)

الإعانۃ علی محظور محظور ‘‘ ۔ (جمہرۃ القواعد الفقہیۃ ‘‘ : ۶۴۴/۲ ، قاعدۃ : ۲۰۳)

فقط

و اللہ سبحانہ اعلم

قمری تاریخ:22جمادی الاولیٰ1440ھ

عیسوی تاریخ:28جنوری 2019ء

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں