میراث کی تقسیم

سوال :السلام علیکم!
میرے سسر کا انتقال ہوگیا ان کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں میرے شوہر کو لے کر ،میرے سسر کا ایک مکان تھا جو کہ ساس کے نام پر ہے، میری ساس نے گھر بچوں میں تقسیم کردیا گھر کی قیمت 35 لاکھ تھی- تینوں بہنوں اور ماں نے اپنا حصہ معاف کردیا ، تب میرے شوہر نے اپنے دونوں بھائیوں سے 12 لاکھ اپنے حصہ کا لے لیا ، پھر میرے شوہر کا انتقال ہوگیا اب سوال یہ ہے کہ میری ساس گھر تقسیم کرنے کے بعد بھی گھر کی فائل اپنے دونوں بیٹوں کو نہیں دینا چاہتیں کیونکہ وہ دونوں نافرمان ہیں ،ساس کو خوف ہے کہ اگر فائل دیا تو کہیں بچے گھر سے نا نکال دیں گھر کی فائل میرے پاس ہے اور ساس فائل دینے سے منع کرتی ہیں اور میرے جیٹھ فون کر کے مجھ سے فائل کا سوال کرتے ہیں- مگر میری ساس منع کر رہی ہیں کہ فائل ان کو مت دینا۔ پلیز مجھے بتائیں کہ ہمارا پیارا اسلام کیا کہتا ہے یہ فائل کس کو دوں یہ امانت مجھ کو بہت پریشان کر رہی ہے، میری ساس یہ کہتی ہیں کہ میرے نام پر مکان ہے تو مالک میں ہوں اس مکان کی ‌مگر حصہ بھی ان‌ کی مرضی سے لیا تھا اب جب کہ میرے جیٹھ بار بار کال کر کے مجھ سے فائل مانگ رہے ہیں اب میرے لئے شرعاً کیا حکم ہے؟
الجواب باسم ملھم الصواب
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

صورت مسئولہ میں بہنوں اور والدہ کا محض اپنے حصہ سے دست بردار ہونا یہ کافی نہیں تھا ،بلکہ اگر یہ لوگ اپنا حصہ بھائیوں کو دینا چاہ رہی تھیں تو بھائیوں کو ہبہ کر کے ان کے قبضے میں دینا ضروری تھا-
صورت مسئلہ میں چونکہ ہبہ کر کے ان کے قبضے میں نہیں دیا گیا، اس لیے اس میں بہنوں اور والدہ کا اب تک حصہ باقی ہے اور ایک بھائی نے جو دیگر دو بھائیوں سے پیسے لیے ہیں تو اپنے سے جو زائد پیسے لیے ہیں وہ ان کو لوٹانا ضروری ہے – اور گھر فی الحال سب بہن بھائیوں اور والدہ کا ہے،لہذا گھر کی فائل ان بھائیوں کو نہیں دی جائے گی،بلکہ اس میں سارے ورثا شریک ہوں گے-
_________________
حواله جات :
1 : وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم ۚ مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۗ(سورة النساء: 12)

ترجمہ:اور تمہاری بیویوں کا تمہارے چھوڑے ہوئے ( مال ) میں سے چوتھا حصہ ہے بشرطیکہ تمہاری کوئی اولاد نہ ہو ، پھر اگر تمہاری کوئی اولاد ہو تو ان کے لئے تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ہے تمہاری اس ( مال ) کی نسبت کی ہوئی وصیت ( پوری کرنے ) یا ( تمہارے ) قرض کی ادائیگی کے بعد

2 : عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ فَرَّ مِنْ مِيرَاثِ وَارِثِهِ قَطَعَ اللَّهُ مِيرَاثَهُ مِنْ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ
(سنن ابن ماجہ : 2703)

ترجمہ :حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص اپنے وارث کو ترکہ دینے سے بھاگے گا ( ایسی وصیت کرے گا جس سے جائز وارث کو حصہ نہ ملے یا اس کے اصل حصے سے کم ملے ) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے اس کی جنت کی میراث سے محروم فرما دے گا ۔‘‘

3 : لو قال تركت حقي من الميرات أو برئت منها ومن حصتي لا يصح وهو على حقه لأن الإرث جبري لا يصح تركه
(رد المحتار کتاب الدعوی باب دعویٰ النسب 12/116)

4 : التركة تتعلق بها حقوق أربعة : جهاز الميت ودفنه والدين والوصية والميراث فيبدأ أولا بجهازه وكفنه وما يحتاج إليه في دفنه بالمعروف، كذا في المحيط – – – ثم بالدين – – – ثم تنفذ وصاياه من ما يبقى بعد الكفن والدين – – – ثم يقسم الباقي بين الورثة على سهام الميراث٠
(فتاوی ہندیہ کتاب الفرائض الباب الاول في تعريفها۔۔۔۔الخ : 6/447)

5 : فريق لا يحجبون بحال البتة وهم ستة: الابن، والأب، والزوج، والبنت والأم، والزوجة
(سراجي في الميراث باب الحجب : 44)

6 : التمليك : هو جعل الرجل مالكاً وهو على أربعة أنحاء: الأول: تمليك العين بالعوض وهو البيع، الثاني: تمليك العين بلا عوض وهي الهبة، والثالث: تمليك المنفعة بالعوض وهي الإجارة، والرابع تمليك المنفعة بلا عوض وهي العارية۔
(تعريفات الفقهيه :62)

7 : لو قال الوارث : ترکت حقی لم یبطل حقہ اذا الملک لا یبطل بالترک٠
( الاشباہ والنظائر: 3/345)

9 : جن لڑکوں نے ماں باپ کو ماں باپ نہیں سمجھا انہوں نے اپنی عاقبت خراب کی اور اس کی سزا دنیا میں بھی انہیں ملے گی مگر ماں باپ کو یہ اجازت نہیں کہ اپنی اولاد میں سے کسی کو جائیداد سے محروم کر جائیں سب کو برابر رکھنا چاہئے ورنہ ماں باپ بھی اپنی عاقبت خراب کریں گے ۔
(آپ کے مسائل اور ان کا حل : 7/397)
واللہ اعلم بالصواب
23 جمادی الاولی 1444
17 دسمبر 2022

اپنا تبصرہ بھیجیں