مردے کے بال صاف کرنا

سوال:محترم جناب مفتیان کرام! السلام علیکم و رحمة الله وبركا ته!کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کوئی عورت انتقال کر جائے اور انتقال سے پہلے وہ ہسپتال میں ہو جس کی وجہ سے جسم کے غیر ضروری بالوں کی صفائی نہ کر پائے تو کیا میت کےغسل کے وقت اس کی صفائی کرنی جائز ہے۔ اگر جائز ہے تو کن شرطوں پر غسل سے پہلے یا بعد میں کرنی چاہیے کیونکہ ابھی کسی میت کا پتہ لگا کہ صفائی نہیں ہوئی تو غسل دینے والی نے خود ان کی صفائی کر دی۔ کیا یہ جائز ہے؟

الجواب باسم ملهم الصواب

وعلیکم السلام و رحمة الله!

واضح رہے کہ زیرِ ناف بال صاف کرنا اور دیگر امور کی پابندی کرنا زندہ لوگوں کے لیے ہے،انتقال کے بعد میت زینت سے بے نیاز ہوچکی ہے، یہی وجہ ہے کہ فقہاء نے لکھا ہے کہ بالوں میں کنگھی نہ کی جائے بال اور ناخن نہ کاٹے جائیں۔اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی مروی ہے۔

لہذا مذکورہ صورت میں اگر مرحومہ کسی شرعی عذر کی بنا پر یا سستی و کاہلی کی وجہ سے زیرناف بال نہ مونڈھ سکے اور وہ فوت ہو جائے تو اس کے غیر ضروری بال صاف نہیں کیے جائیں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات

1.”(قوله: ولايسرح شعره ولحيته، ولايقص ظفره وشعره)؛ لأنها للزينة، وقد استغنى عنها، والظاهر أن هذا الصنيع لايجوز. قال في القنية: أما التزين بعد موتها والامتشاط وقطع الشعر لايجوز، والطيب يجوز”. (بحر الرائق, 278/5)

2.“الوقوف عن أخذ ذلك أحب إلي، لأنه المأمور بأخذ ذلك من نفسه الحي، فإذا مات انقطع الامر.”(الأوسط فى السنن والإجماع والاختلاف : 329/5)

“ولا یؤخذ شيء من شعر المیت ولا ظفرہ ولا یختن لما روی عن عائشۃ أنہا انکرت ذلک فقالت علام تنصون میتکم ۔ رواہ مسلم ۔ أي تأخذون ناصیتہ یقال : نصوتہ أي أخذت ناصیتہ ، ولأن السنۃ أن یدفن المیت لجمیع أجزائہ لاحترامہ ، ولأن ذلک في الحي یفعل للزینۃ والمیت قد فارق الزینۃ وأہلہا ۔ (حلبي کبیر , فصل في الجنائز ,ص579)

🔸و اللہ سبحانہ اعلم🔸

بقلم:

قمری تاریخ: 18 صفر 1443ھ

عیسوی تاریخ: 26 ستمبر 2021

اپنا تبصرہ بھیجیں