سوال: انتہائی طلب کی صورت میں زنا سے بچنے کی خاطر مشت زنی جائز ہے یا نہیں ؟
الجواب حامدًا ومصلّياً
كئی احادیث میں اس فعل ِ بد (مشت زنی (Musterbation)،ہینڈ پریکٹس) پر وعیدیں وارد ہوئی ہیں، ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :سات لوگ ایسے ہیں جن سے اللہ تعالی ٰ قیامت کے دن نہ گفتگو فرمائیں گے اور نہ ان کی طرف نظر ِ کرم فرمائیں گے ۔۔۔۔اُن میں سے ایک وہ شخص ہے جو اپنے ہاتھ سے نکاح کرتا ہے (یعنی مشت زنی کرتا ہے )، اور ایک حدیث میں ارشاد فرمایاگیا ہے کہ اپنے ہاتھ سے نکاح کرنے والا قیامت کے دن ایسی حالت میں آئے گا کہ اُس کے ہاتھ حاملہ ہوں گے ۔ اوراس کی حرمت قرآن کریم سے ثابت ہے، چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
{وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ (5) إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ (6) فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ (7) } [المؤمنون: 5 – 8]
ترجمہ :‘‘اور جو اپنی شرم گاہوں کی(اور سب سے ) حفاطت کرتے ہیں(۵)سوائے اپنی بیویوں اور ان کنیزوں کے جو ان کی ملکیت میں آچکی ہوں ،کیونکہ ایسے لوگ قابل ملامت نہیں ہیں(۶)ہاں جو اسکے علاوہ کوئی طریقہ اختیار کرنا چاہےتو ایسے لوگ حد سےگزرے ہوئے ہیں’’
یعنی بیوی اور شرعی کنیز کے سوا کسی اور طریقے سے اپنی جنسی خواہش پوری کرنا حرام ہے۔ (آسان ترجمہ قرآن)
معارف القرآن میں حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ اس آیت کے تحت فرماتے ہیں:
‘‘جمہور کے نزدیک استمناء بالید یعنی اپنے ہاتھ سے منی خارج کرلینابھی اس میں داخل ہے’’،یعنی مشت زنی ناجائز اور حرام ہے۔
لہذا اس بناء پر جمہور علماء ِ کرام کے نزدیک لذت حاصل کرنے کے لئے مشت زنی کرنا ناجائز اور گناہ ہے، البتہ اگر کسی غیر شادی شدہ شخص پر یا بیوی سے دور شخص پر شہوت کا اس قدر غلبہ ہو کہ کسی گناہ میں مبتلا ہونے کا شدید خطرہ ہو تو درج ذیل صورتوں پر عمل کرے ۔
(۱)غلط ماحول اور خیالات سے بچنے کی حتی المقدور کوشش کرے ،اگر شادی شدہ ہے اور بیوی سے کہیں دور ہے تو بیوی کے پاس آنے کی فوری کوئی صورت اختیار کرے ،اور اگر رخصتی نہیں ہوئی تو رخصتی کاانتظام کرے ، لیکن واضح رہے کہ نکاح کے بعد رخصتی سے پہلے بیوی کے ساتھ تعلق رکھنا شرعا ً جائز ہے۔
(۲) روزہ رکھے ،کیونکہ روزہ رکھنے سے شہوت مغلوب ہوتی ہے ۔
(۳)تسکین بخش دوائی اور غذا استعمال کرے ،جب ان مذکورہ صورتوں پر عمل کرنے سے بھی شہوت مغلوب نہ ہو، اوربیوی کے پاس آنے یا رخصتی کا فوری کوئی انتظام بھی نہ ہورہا ہو،اور زنا میں مبتلا ہونے کا قوی اندیشہ ہو، تو اگر ایسا شخص زنا سے بچنے کی غرض سے مشت زنی کرے تو انشاء اللہ تعالیٰ توقع ہے کہ ا س پر اس کا کوئی وبال نہ ہوگا ،کیونکہ اس کا مقصد زنا سے بچنا ہے، نہ کہ لذت حاصل کرنا ،لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ سے توبہ واستغفار بھی کرے۔(مأخذہٗ تبویب۷۴؍۱۲۴)
شعب الإيمان (7/ 329)
عن أنس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ” سبعة لا ينظر الله عز وجل إليهم يوم القيامة، ولا يزكيهم، ولا يجمعهم مع العالمين، يدخلهم النار أول [ص:330] الداخلين إلا أن يتوبوا، إلا أن يتوبوا، إلا أن يتوبوا، فمن تاب تاب الله عليه الناكح يده، والفاعل والمفعول به، والمدمن بالخمر، والضارب أبويه حتى يستغيثا، والمؤذي جيرانه حتى يلعنوه، والناكح حليلة جاره
===================================
شعب الإيمان (7/ 330)
عن أنس بن مالك قال: ” يجيء الناكح يده يوم القيامة ويده حبلى ”
إعلاء السنن (11/263)
قال المؤلف: دلالة الحديث علي الباب ظاهرة من حيث أن المستمني قد توعد والوعيد لا يكون إلا علي ترك الواجب
قال بعض الناس: وفي رد المحتار (2/160) استدل (الزيلعي شارح الكنز) على عدم حله بالكف بقوله تعالى {والذين هم لفروجهم حافظون} [المؤمنون: 5] الآية وقال فلم يبح الاستمتاع إلا بهما أي بالزوجة والأمة اهـ فأفاد عدم حل الاستمتاع أي قضاء الشهوة بغيرهما اهـ
قلت: فإن لم يوجد سند الأحاديث محتجا به فلا يضر المستدل، فإن الدعوي ثابتة بالقرن المجيد، وجعله صاحب الدر المختار مكروها تحريما
===================================
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق (1/ 323)
والاستمناء بالكف على ما قاله بعضهم وعامتهم على أنه يفسدولا يحل له إن قصد به قضاء الشهوة لقوله تعالى {والذين هم لفروجهم حافظون} [المؤمنون: 5] {إلا على أزواجهم أو ما ملكت أيمانهم} [المؤمنون: 6] إلى أن قال {فمن ابتغى وراء ذلك فأولئك هم العادون} [المؤمنون: 7] أي الظالمون المتجاوزون فلم يبح الاستمتاع إلا بهما فيحرم الاستمتاع بالكف وقال ابن جريج سألت عنه عطاء فقال مكروه سمعت قوما يحشرون وأيديهم حبالى فأظن أنهم هم هؤلاء وقال سعيد بن جبير عذب الله أمة
كانوا يعبثون بمذاكيرهم وإن قصد به تسكين ما به من الشهوة يرجى أن لا
يكون عليه وبال.
===================================
التفسير المظهري (10/ 68)
وفيه دليل على ان الاستمناء باليد حرام وهو قول العلماء قال ابن جريح سالت عطاء عنه فقال مكروه سمعت ان قوما يحشرون وأيديهم حبالى فاظن انهم هؤلاء وعن سعيد بن جبير قال عذب الله امة كانوا يعبثون بمذاكيرهم قلت وفى الباب حديث انس رض قال قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم – ملعون من نكح يده رواه الأزدي فى الضعفاء وابن الجوزي من طريق الحسن بن عرفة فى جزئية المشهور بلفظ سبعة لا ينظر الله إليهم فذكر الناكح يده واسناده ضعيف.
===================================
تفسير ابن كثير (5/ 404)
وقد استدل الإمام الشافعي رحمه الله ومن وافقه على تحريم الاستمناء باليد بهذه الآية الكريمة والذين هم لفروجهم حافظون إلا على أزواجهم أو ما ملكت أيمانهم قال: فهذا الصنيع خارج عن هذين القسمين، وقد قال الله تعالى: فمن ابتغى وراء ذلك فأولئك هم العادون
===================================
واللہ تعالی اعلم بالصواب