مضاربہ میں منافع یکسان رہنا

سوال:سوال یہ ہے کہ ہم نے ایک دوکاندار کے پاس ایک لاکھ روپے نفع اور نقصان کی بنیاد پر انویسٹ کیے ہیں لیکن وہ ہر مہینے ہمیں ایک ہی فکس اماؤنٹ دے رہے ہیں۔انکا کہنا ہے کہ ہم نے آپکی رقم سے ایک ہی کمپنی کا مال لیا ہے جسکا فکس منافع بنتا ہے۔ہمیں اس سے یہ آسانی ہے کہ ہر مہینے حساب نہی کرنا پڑتا۔ کیا یہ حساب درست ہے؟ پہلے 1لاکھ پر3300روپے ملتے تھے پھر3000ملنے لگے اب لاک ڈاؤن کے بعد سے2500 منافع مل رہا ہے۔اس معاملے میں مفتیان کرام سے رہنمائی درکار ہے۔

تنقیح:

دکاندار کے پاس پیسے انوسٹ کرتے وقت منافع کی تقسیم کی کیا شرائط طے ہوئے؟

جواب تنقیح:

منافع میں% 60 اور% 40کی شرح طے ہوئی تھی۔60%ہمارا اور40%دوکاندار کا۔

الجواب باسم ملہم الصواب

و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ!

مذکورہ بالا معاملہ شریعت کی اصطلاح میں ‘مضاربت’ کہلاتا ہے۔ مضاربت میں ایک فریق روپے لگاتا ہے دوسرے فریق کی محنت ہو تی ہے اور نفع میں دونوں آپسی رضامندی سے فیصدی کے اعتبار سے شریک ہو تے ہیں اور نقصان کا ذمہ دار وہ فریق ہوتا ہے جس نے پیسہ لگایا ہے، محنت کرنے والا فریق نقصان کا ذمہ دار نہیں ہوتا؛ البتہ نفع نہ ہونے کی شکل میں نفع سے محروم رہتا ہے۔ [۱]

البتہ ایک بات ذہن نشین رہے کہ فریقین کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے لیے کوئی خاص رقم، مثلا ہزار روپیہ، مخصوص کرے۔ [۲]

اگر منافع کا یکساں رہنا محض اتفاق ہو نہ کہ بد دیانتی کا نتیجہ تو اس کی وجہ سے معاملہ نا جائز نہیں ہوگا۔ ہاں، احتیاط کا تقاضہ ہے کہ منافع تقسیم کرتے وقت پھر بھی باقاعدہ حساب لگا دیا جائے۔

= = = = = = =

• [۱] ہي عقد شرکۃ في الربح بمال من جانب رب المال وعمل من جانب المضارب۔ (الدر المختار مع الشامي: ج: ۸ ص ۶۳۰)

• ومن شرطہا أن یکون الربح بینہما مشاعًا لا یستحق أحدہما دراہم مسماۃ من الربح۔ (الہدایۃ / کتاب المضاربۃ: ج ۳، ۲۴۲)

فقط۔ واللہ اعلم۔

اپنا تبصرہ بھیجیں