عقدمشارکۃ یامضاربۃ میں نفع کی حد شرح فیصدسےمتعین کرناضروری ہےیانہیں

فتویٰ نمبر:488

سوال:کیافرماتےہیں علماءکرام تجارت کےمسئلہ ذیل میں !

  زید تجارت کرتاہےبکرنےاس کوکچھ رقم دی کہ اپنےکاروبارمیں لگالواورجو مناسب نفع ہومجھےماہانہ دیتےرہنا زید نےاس رقم کواپنےکاروبارمیں لگالیا اب زید اپنی ماہانہ  آمدنی(نفع نہیں) کاایک فیصد٪بکرکودیتاہے یہ ایک فیصد ہرمہینہ کم یازیادہ ہوتاہے مثلاً اگرکسی مہینہ میں ایک لاکھ کی Sale ہوتو 1000روپے 80ہزارکی سیل ہوتو800روپے بکرکوملتےہیں کیااس طرح نفع لینابکرکےلئےجائزہےاوراس میں کوئی شرعی قباحت تونہیں ہے؟

اگراس میں کوئی قباحت ہےتوکیاطریقہ اختیارکیاجائے؟       

الجواب حامدا   ومصلیا

   واضح رہےکہ جب دوشخصوں کاباہمی عقدِ مشارکہ یاعقدِ مضاربہ ہوتاہےتواس میں یہ ضروری ہےکہ فریقین کی نفع کی حد شرح فیصد سےمتعین کری جائےاورپھراسی تناسب  سے باہم  نفع تقسیم کیا جائے۔(۱)

جیساکہ فتاوٰی عالمگیری (2/301)میں ہے:

وَشَرْطُ جَوَازِ هَذِهِ الشَّرِكَاتِ كَوْنُ الْمَعْقُودِ عَلَيْهِ عَقْدَ الشَّرِكَةِ قَابِلًا لِلْوَكَالَةِ، كَذَا فِي الْمُحِيطِ وَأَنْ يَكُونَ الرِّبْحُ مَعْلُومَ الْقَدْرِ، فَإِنْ كَانَ مَجْهُولًا تَفْسُدُ الشَّرِكَةُ وَأَنْ يَكُونَ الرِّبْحُ جُزْءًا شَائِعًا فِي الْجُمْلَةِ لَا مُعَيَّنًا فَإِنْ عَيَّنَا عَشَرَةً أَوْ مِائَةً أَوْ نَحْوَ ذَلِكَ كَانَتْ الشَّرِكَةُ فَاسِدَةً، كَذَا فِي الْبَدَائِعِ.

            لہذاصورتِ مسئولہ میں شرعی اعتبارسےدوقباحتیں ہیں جن کودورکرناضروری ہے ایک یہ کہ شرح ِ فیصد سےبکرکاحصہ باقاعدہ متعین کیاجائے یابکرکومنافع اسکی رقم کے تناسب سےوصول ہوکہ زید کےکاروبارمیں بکرکی دی ہوئی رقم کوملاکرمجموعہ میں بکرکی رقم کا جوتناسب ہواسی تناسب سےمنافع میں بکرکوشریک  سمجھ کراتناحصہ متعین کرکےدیاجائے

دوم یہ کہ  بکرزید کےکاروبارکی مجموعی آمدنی میں حصہ دارنہیں ہےبلکہ اس آمدنی میں جو حاصل شدہ منافع اس کےسرمایہ کاحصہ بنتاہےوہ اس کوشرح ِ فیصد کےاعتبارسےمقررکرکے دیاجائے۔

مثلاًاس کی  رقم مجموعی کاروبارمیں ایک فیصدہےیاانہوں نےآپس میں منافع کی شرح بکرکیلئےایک فیصد متعین کرلی ہےتوبکرایک فیصد مجموعی آمدنی میں نہیں بلکہ اس آمدنی میں حاصل شدہ اپنےسرمایہ کےمنافع میں حقدارہوگا

التخريج

(۱)بدائع الصنائع، دارالكتب العلمية – (6 / 59)

(وَمِنْهَا) : أَنْ يَكُونَ الرِّبْحُ مَعْلُومَ الْقَدْرِ، فَإِنْ كَانَ مَجْهُولًا تَفْسُدُ الشَّرِكَةُ؛ لِأَنَّ الرِّبْحَ هُوَ الْمَعْقُودُ عَلَيْهِ، وَجَهَالَتُهُ تُوجِبُ فَسَادَ الْعَقْدِ كَمَا فِي الْبَيْعِ وَالْإِجَارَةِ. (وَمِنْهَا) : أَنْ يَكُونَ الرِّبْحُ جُزْءًا شَائِعًا فِي الْجُمْلَةِ، لَا مُعَيَّنًا، فَإِنْ عَيَّنَا عَشَرَةً، أَوْ مِائَةً، أَوْ نَحْوَ ذَلِكَ كَانَتْ الشَّرِكَةُ فَاسِدَةً؛ لِأَنَّ الْعَقْدَ يَقْتَضِي تَحَقُّقَ الشَّرِكَةِ فِي الرِّبْحِ وَالتَّعْيِينُ يَقْطَعُ الشَّرِكَةَ لِجَوَازِ أَنْ لَا يَحْصُلَ مِنْ الرِّبْحِ إلَّا الْقَدْرُ الْمُعَيَّنُ لِأَحَدِهِمَا، فَلَا يَتَحَقَّقُ الشَّرِكَةُ فِي الرِّبْحِ.

الفقه الإسلامي وأدلته    وهبة الزحيلي – (5 / 535)

2  ـ أن يكون الربح معلوم القدر بجزء محدد: أي بحيث تكون حصة كل شريك من الربح نسبة معلومة منه، كخمسه أو ثلثه أو عشرة في المئة، فإن كان الربح مجهولاً تفسد الشركة؛ لأن الربح هو المعقود عليه، وجهالة المعقود عليه تستوجب فساد العقد. 3 – أن يكون الربح جزءاً شائعاً في الجملة لا   معيناً: فإن عينا ربحاً معيناً لأحدهما كعشرة أو مئة، كانت الشركة فاسدة؛ لأن العقد يقتضي تحقق الاشتراك في الربح، ومن الجائز ألا يتحقق الربح إلا في القدر المعين لأحد الشريكين، فكان التعيين منافياً لمقتضى عقد الشركة.

اپنا تبصرہ بھیجیں