نماز جمعہ کے وقت تحیہ الصلاۃ پڑھنا

سوال:جمعہ کے خطبہ کے دوران آپﷺ نے صحابی رضی اللہ عنہ کو نفل پڑھنے کی اجازت دی، جبکہ جمعہ کے خطبہ کے دوران خاموش رہنا واجب ہے،اس کو کیسے جمع کریں گے؟

الجواب باسم ملھم بالصواب

جمہور صحابہ، تابعین، احناف اور مالکیہ کے مطابق جمعہ کے خطبہ کے دوران کسی قسم کا کلام یا نماز آیت قرآنی” واذا قری القرآن فاستمعوا لہ و انصتوا” (اعراف:204)اور کئی احادیث کی وجہ سےجائز نہیں۔

جہاں تک بات ہے حضرت سلیک غطفانی کے واقعے کی جس کا سوال میں ذکر ہے تو اس کا ایک خاص سیاق وسباق ہے اور وہ یہ کہ آپ جمعہ کے خطبہ کے لیے منبر پر تشریف فرما تھے، ابھی خطبہ شروع نہیں فرمایا تھا کہ اسی دوران مذکورہ صحابی انتہائی بوسیدہ کپڑے پہنے ہوئے مسجد میں داخل ہوئے،آپ نے ان کا فقرو فاقہ دیکھ کر مناسب یہ سمجھا کہ تمام صحابہ ان کے فقر وفاقہ کی کیفیت کو دیکھ لیں،اس لیے انھیں نماز کا حکم دیا اور جتنی دیر انھوں نے نماز پڑھی اتنی دیر آپ خاموش رہے ،اس کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم کو صدقہ کی ترغیب دی ،جس پر صحابہ نے ان پر خوب صدقہ کیا۔

لہذا اس واقعہ کا مذکورہ آیت وحدیث سے کوئی تعارض نہیں ۔

========================

حوالہ جات:

1:بخاری: باب الانصات یوم الجمعۃ والامام یخطب: (1/549 جمیعتہ البشری الخیریہ کراتشی)

ان رسول اللہ ﷺ قال، ” اذا قلت لصاحبک یوم الجمعۃ : “انصت، والامام یخطب: فقد لغوت”

ترجمہ: رسول اللہﷺ نے فرمایا:جب تم جمعہ کے دن اپنے ساتھی سے کہو، “خاموش ہو جاؤ اس حال میں کہ امام خطبہ دے رہا ہو تو تم نے لغو کیا”۔

2: الدر المختار(2/159 طبع سعید)

وکل ما حرم فی الصلاۃ حرم فیھا ای فی الخطبۃ خلاصۃ وغیرھا فیحرم اللہ شرب و کلام ولو تسبیحات او رد سلام او امرا بمعروف بل یجب علیہ ان یستمع و یسکت۔

3: اعلاء السنن: (2/67ط ادارۃ القرآن کراتشی) باب کراھۃ الصلاہ والسلام: اذاخرج الامام للخطبۃ یوم الجمعۃ لا سیما اذا شرع فیھا.

4: صحیح مسلم عن جابر ، انہ قال:”جاء سلیک الغطفانی یوم الجمعۃ، ورسولہ اللہ ﷺ قاعد علی المنبر، فقعد قبل ان یصلی، فقال لہ النبی ﷺ : “ارکعت رکعتین؟” قال: لا، قال: “قم فارکعھما”

ترجمہ: جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا،” سلیک عطفانی رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن تشریف آئے اس حال میں کہ رسول اللہ ﷺ منبر پر تشریف فرما تھے۔ تو سلیک عطفانی رضی اللہ عنہ نماز پڑھے بغیر بیٹھنے لگے، تو نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کیا آپ نے دو رکعات ادا کرلیں؟” انھوں نے جواب دیا،”نہیں” تو آپ ﷺ نے فرمایا اٹھو اور پڑھ لو۔”

5:ترمذی ابواب الجمعۃ (1/248مکتبہ لدھیانوی):

عن عیاض بن عبداللہ بن ابی سرح: ان ابا سعید الخدری ۔۔ثم ذکرہ ان رجلا جاء یوم الجمعہ فی ھیئۃ بذۃ والنبی ﷺ یخطب یوم الجمعۃ، فامرہ فصلی رکعتین۔۔۔

ترجمہ: ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ ۔۔ فرماتے ہیں،” پھر ذکر کیا کہ ایک شخص جمعہ کے دن میلی کچیلی حالت میں آئےاس وقت حضورﷺ خطبہ دے رہے تھے حضورﷺ نے انھیں دو رکعات پڑھنے کا حکم فرمایا۔”

6: درس ترمذی ابواب الجمعہ (2/246 مکتبہ دار العلوم کراچی):

تطبیق کے لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ حدیث میں “والامام یخطب” سے مراد “کاد/یرید الامام ان یخطب” ہے۔ جس کی دلیل مسلم شریف کی حدیث کا لفظ “قعد” ہے۔ دوسرا محرم اور مبیح میں تعارض کے وقت محرم کو ترجیح ہوتی ہے ۔

واللہ اعلم بالصواب

اپنا تبصرہ بھیجیں