نماز میں سلام پھیرنے کا مسنون طریقہ 

فتویٰ نمبر:4074

سوال: السلام علیکم!

جب ہم نماز پڑھ کر سلام پھیرنے لگتے ہیں تب ہماری گردن سیدھی ہوتی ہے السلام علیکم ورحمتہ اللہ اس وقت سے پڑھنا شروع کریں۔ اس طرح سے سیدھے کندھے کی طرف گردن پھیرنے تک سلام ختم ہو جائے یا پھر گردن پوری سیدھی کندھے کی طرف پھیر لیں اس کے بعد السلام علیکم و رحمتہ اللہ پڑھیں گے؟ کون سا طریقہ صحیح ہے؟

کیونکہ یہ ہم فرشتوں کو سلام کرتے ہیں اور اگر گردن سیدھی میں پڑھتے ہیں تو گردن مڑنے تک سلام مکمل ہو جاتا ہے، یہ طریقہ مناسب نہیں لگتا۔ 

و السلام: 

الجواب حامدا و مصليا

وعلیکم السلام!

سلام پھیرنے کے دونوں طریقے احادیث سے ثابت ہیں۔

۱) پہلا طریقہ دائیں یا بائیں رخ کرنے کے بعد سلام کرنا ؛ یعنی کندھے تک پہنچ کر سلام کہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سلام پھیرا کرتے تھے یہاں تک کہ رخسار انور کی سفیدی نظر آتی تھی ۔ آپ اپنی نظروں کو دائیں جانب کئے ہوئے تھے جیسا کہ کوئی شخص اپنی دائیں جانب موجود شخص کو سلام کہتے ہوئے کرتا ہے۔ یعنی دائیں جانب چہرہ لائے اور سلام کہے۔ 

۲) سلام کو سامنے کے رخ سے ہی شروع کر دے پھر کندھے تک پہنچ کر سلام کا اختتام ہو جائے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللی علیہ وسلم نماز میں سلام کہتے تھے پھر دائیں جانب رخ فرماتے۔ 

معارف السنن میں مولانا یوسف بنوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب چہرہ قبلہ رخ ہو اس وقت ابتدا کرے سلام کی اور اس کو پھیلا دے اختتام کندھے پہ کرے۔ یہی قول راجح ہے۔

” نماز میں سلام کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ لفظ ’’السلام‘‘ کہتے ہوئے گردن موڑتا جائے جس میں ’’السلام‘‘ کا کچھ حصہ دائیں طرف اور بائیں طرف موڑتے ہوئے ادا ہوجائے اور ’’علیکم ورحمۃ اﷲ‘‘ مکمل مڑ چکنے کے بعد ادا ہو۔”

{فتاوی قاسمیہ:۷/ ۷۷۰}

” عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللهُ عَنهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُسَلِّمُ عَنْ يَمِينِهِ، وَعَنْ شِمَالِهِ، حَتَّى يُرَى بَيَاضُ خَدِّهِ۔”

{ابو داود: ۹۹۶}

“وَعَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یُسَلِّمُ فِی الصَّلَاۃِ تَسْلِیْمَۃً تِلْقَاءَ وَجْھِہٖ ثُمَّ یَمِیْلُ اِلَی الشَّقِّ الْاَیْمَنِ شَیْئًا۔”

{ مشکوۃ شریف: ۱/ ۹۲۲}

{ رواہ الترمذی}

“(کان یسلم) ای من صلاتہ حال کونہ ملتفتا بخدہ (عن یمینہ) ای مجاوزا نظرہ عن یمینہ کما یسلم احد علی من یمینہ۔”

{مرقات : ۲/۳۵۴}

” ہہنا نذکر سنن التسلیم، فمنہا: أن یبدأ بالتسلیم عن الیمین (إلی قولہ) ومنہا: أں یبالغ في تحویل الوجہ في التسلیمتین، ویسلم عن یمینہ، حتی یری بیاض خدہ الأیمن، وعن یسارہ حتی یری بیاض خدہ الأیسر (إلی قولہ) ولا یکون ذلک إلا عند شدۃ الالتفات۔”

{بدائع الصنائع: ۱/۵۰۲}

فقط ۔ واللہ اعلم 

قمری تاریخ: 23 جمادی الثانیہ 1440

عیسوی تاریخ: 28 فروری 2019

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6

اپنا تبصرہ بھیجیں