نماز میں سر (آہستہ آواز میں قراءت) کی مقدار

سوال:منفرد کی نماز میں قرات کرتے ہوئے سر کی مقدار کیا ہونی چاہیے جس سے نماز درست ہو.

آیا اتنی آواز ہو کہ اپنے کانوں کو آواز سنائی دے، یا فقط ہونٹ ہلا لینا کافی ہوگا اگرچہ کچه آواز نا نکلے ؟

فتویٰ نمبر:224
الجواب باسم ملھم الصواب.
اگر اتنا آہستہ پڑھا کہ حروف تو صحیح ادا ہوگئے لیکن آواز بالکل نہیں سنائی دی تو کرخی رحمہ اللہ اور ابو بکر بلخی رحمہ اللہ کے قول کے مطابق نماز صحیح ہوگئی  اور ہندوانی رحمہ اللہ اور فضلی رحمہ اللہ کےقول کے مطابق صحیح نہیں ہوئی کیونکہ ان کے نزدیک صرف تصحیح حروف(حروف کا صحیح طور پر ادا ہونا) کافی نہیں بلکہ آواز کانوں تک پہنچنا بھی ضروری ہے اور شیخ الاسلام و قاضی خان و صاحب محیط و حلوانی نے ہندوانی کے قول کو اختیار کیا ہے ۔ اور یہی زیادہ احتیاط کا تقاضہ ہےکہ اتنی آواز سے قراءت کی جائےجس کو خود نمازی سن لے-بہر حال نماز کی حد تک فتوی کرخی کے قول پر ہے کیونکہ ھندوانی کا قول لیں تو لوگ وسوسے کا شکار ہوں گے اور مسجدوں میں زور زور سے قرات ہونے لگے گی.
و ادنی الجھر اسماع غیرہ و ادنی المخافتۃ اسماع نفسہ. در مختار- (1-534,535)
وتحتہ فی رد المحتار:(قَوْلُهُ لَمْ يَصِحَّ فِي الْأَصَحِّ) أَيْ الَّذِي هُوَ قَوْلُ الْهِنْدُوَانِيُّ. وَأَمَّا عَلَى قَوْلِ الْكَرْخِيِّ فَيَصِحُّ وَإِنْ لَمْ يُسْمِعْ نَفْسَهُ لِاكْتِفَائِهِ بِتَصْحِيحِ الْحُرُوفِ –
قال الهندواني:” لا تجزئه ما لم تسمع أذناه ومن بقربه بالسماع شرط فيما يتعلق بالنطق باللسان التحريمة والقراءة السرية والتشهد والأذكار والتسمية على الذبيحة ووجوب سجود التلاوة والعتاق والطلاق والاستثناء واليمين والنذر والإسلام والإيمان ….وقال الكرخي القراءة تصحيح الحروف وإن لم يكن صوت بحيث يسمع والصحيح خلافه قاله المحقق الكمال ابن الهمام رحمه الله تعالى.”
(مراقی الفلاح شرح نور الایضاح 84/1)
بنت محمد اقبال.
دارالافتاء صفہ آن لائن کورسز- 
صفر 1438ھ.
20 نومبر 2016ء

اپنا تبصرہ بھیجیں