نماز سے متعلق ہدایات واحکام

تحویل قبلہ ،اعتراضات کا جواب:
اللہ تعالی نے پہلے بیت اللہ کو قبلہ مقرر فرمایا پھرآپﷺ کی مدینہ منورہ تشریف آوری کے بعد 16، 17 ماہ کے لیے بیت المقدس کو قبلہ قرار دیا گیا،اس کے بعد نبی پاکﷺ کی شدید خواہش اوردعاؤں کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ نےدوبارہ کعبہ کو قبلہ بنانے کا حکم دیا{قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ} [البقرة: 144]
اورتاکیدسے فرمایاکہ سفر ہو یاحضر،حرم مکی میں ہوں یا اسے باہر،دنیا کے کسی بھی حصے میں ہوں، ہرحالت میں قبلہ بیت اللہ شریف ہے۔
پھریہ پیشین گوئی بھی فرمائی کہ قبلہ کی تبدیلی کے حکم پر مخالفین کی طرف سے بڑاشور مچے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔اس حکم پر یہوداور مشرکین نے پے در پے اعتراضات کیے{مَا وَلَّاهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُوا عَلَيْهَا } [البقرة: 142]
اﷲ نے جواب میں فرمایا:{قُلْ لِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ} [البقرة: 142]’’مشرق و مغرب سب کا مالک اﷲ ہی ہے۔‘‘ { فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ} [البقرة: 115]وہ ہرسمت میں موجود ہے ہرجگہ موجود ہے اس لیے اس کی مرضی… وہ اپنی حکمت سےجب چاہے جس رخ کو قبلہ و کعبہ قرار دے۔
دوسرا یہ کہ اصل چیز اللہ کی اطاعت ہے، قبلہ تو محض ایک سمت ہے ۔عبادت اس سمت کی نہیں بلکہ اللہ کی مطلوب ہے۔تقدس اللہ کےحکم کوحاصل ہے کسی سمت کونہیں۔
تیسری بات یہ کہ جس طرح عیسائیوں کا قبلہ الگ ہے ، یہودیوں کا قبلہ الگ ہے تو اگر مسلمانوں کا قبلہ الگ ہو تو اس میں کون سی حیرانی کی بات ہے؟ {وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ} [البقرة: 148]
چوتھایہ کہ صحت ایمان وعقیدہ ،نماز، روزہ ، زکوۃ، انفاق فی سبیل اللہ اور صبر وشکر وغیرہ یہ چیزیں اصل عبادات ہیں۔ یہ کسی بھی مذہب میں کبھی ختم نہیں ہوئیں۔مخالفین کوچاہیے کہ وہ ان پر زیادہ توجہ رکھیں۔قبلہ میں کیارکھاہے ؟وہ تومحض ایک جہت اور سمت ہے صرف ایک وسیلہ ہے۔عقل مند انسان ہمیشہ مقاصد پر نظررکھتاہے {لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ} [البقرة: 177]

اپنا تبصرہ بھیجیں