نحمدہ ونصلی علٰی رسولہ الکریم، امّابعد!
یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآءَ تْکُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَشِفَاءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ وَھُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُوؤمِنِیْنَo (یونس : آیت ۵۷)
میرے محترم دوستو بزرگو! قرآن پاک کی جو آیت کریمہ تلاوت کی گئی ہے، اس میں اﷲ جل شانہ نے ساری انسانیت کو خطاب فرمایا ہے کہ ’’لوگو تمہار ے پاس ایک نصیحت آئی ہے جو تمہارے پالن ہار کی طرف سے آئی ہے، تمہارے پرورش کرنے والے کی طرف سے آئی ہے‘‘۔ (یونس ۵۷) یعنی یہ نصیحت اس اﷲ کی طرف سے آئی ہے جس کے ہر آن ہر لحظہ تم محتاج ہو۔ (علماء نے یہ بتلایا ہے کہ رب کہتے اس کو ہیں جو ابتداء سے لے کر انتہا تک آہستہ آہستہ پہنچائے) اس لیے ہماری ابتداء سے لے کر انتہا تک ہم ہر آن ہر گھڑی اﷲ کے محتاج ہیں اور کوئی ایک گھڑی بھی ہم اﷲ کی ربوبیت سے نکل نہیں سکتے۔
گویا اﷲ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ بندو! تم ہر گھڑی ہر لحظہ میرے محتاج ہو اور میں تمہاری پرورش کرتا ہوں تمہاری دیکھ بھال کرتا ہوں تو پھر تم ہر آن میرا شکر ادا کیوں نہیں کرتے؟ تمہیں یہ چاہیے کہ ہر آن میرا شکر ادا کرو ہر گھڑی میرا شکر ادا کرو، اس لیے کوئی گھڑی زندگی کی ایسی نہیں ہونی چاہیے کہ بندہ اﷲ کا شکر ادا نہ کر رہا ہو۔
سب سے زیادہ شکر گزار:
یہی وجہ ہے کہ اﷲ کے نبی ﷺ کی ساری زندگی اس کا نمونہ تھی اﷲ کے نبی ﷺ کی زندگی کی کوئی گھڑی بھی ایسی نہیں تھی جس میں اﷲ کے نبی wکوئی ذکر اذکار نہ کر رہے ہوں۔ اﷲ کا تعلق نبی کے دل سے ہر حال میں ہوتا ہے اور نبی ہر آن اپنا تعلق اﷲ سے رکھتا ہے لیکن اﷲ کے نبی ﷺکی زبان مبارک بارے میں حضرت عائشہر فرماتی ہیں: کان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم یذکر اﷲ تعالیٰ علی کل احیانہ۔ (ریاض الصالحین: ۴۲۴ باب ذکر اﷲ تعالیٰ قائما و قاعدا، و مضطجعا بحوالہ مسلم) ’’کہ آپ ﷺ اﷲ کا ذکرہر لمحہ ہر گھڑی کیا کرتے تھے۔‘‘ کوئی گھڑی زندگی کی ایسی نہیں تھی اﷲ کے نبی کی کہ اﷲ کو یاد نہ کر رہے ہوں۔ وجہ اس کی یہی تھی کہ ہم ہوں یا اﷲ کے نبی ہوں دنیا کی کتنی بڑی شخصیت کیوں نہ ہو وہ ہر آن اﷲ کی محتاج ہے ہر آن اﷲ کے اس پر احسانات ہوتے ہیں اور جتنا کوئی بڑا ہوتا ہے اس پر احسانات بھی بڑے ہوتے ہیں۔ اس لیے وہ اﷲ کا سب سے زیادہ شکر گزار بندہ بنتا ہے اور اﷲ کے سب سے زیادہ احسانات اپنے آخری نبی حضرت محمدﷺ پر ہیں اس لیے سب سے بڑے شکر گزار اﷲ کے آخری نبی ﷺ ہیں۔
اﷲ کے نبیﷺ فرماتے ہیں: ’’اے اﷲ میں نے آپ کی تعریف کی ہے لیکن ایسی تعریف کہ آپ کا حق ادا نہیں ہوسکتا، آپ اپنی تعریف خود کریں تو حق ادا ہوسکتا ہے لیکن دنیا کا کوئی انسان آپ کی تعریف کرے اسی طرح اﷲ کی مخلوق میں سے کوئی تعریف کرے تو فرمایا آپ کا حق ادا ہوسکتا ہی نہیں۔‘‘
معلوم ہوا کہ اﷲ کی تعریف تو اس قدر ہے کہ اﷲ کے نبی ﷺخود فرما رہے ہیں کہ میں آپ کی تعریف کا حق اداء نہیں کرسکتا تو پھر ہم جیسے لوگ اﷲ کی تعریف کا حق ادا کرسکتے ہیں؟
لیکن اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جیسا بھی میرا حق ادا کرنے کی کوشش کرو گے ہم جیسی بھی ان کی تعریف کریں، لولی لنگڑی، اُلٹی سیدھی کہ جس سے حق ادا نہ ہوسکے، لیکن یہ محض ان کا کرم ہے فضل ہے کہ وہ ہماری ہر تعریف کو قبول فرما لیتے ہیں۔
اس لیے اﷲ ہم سب کو یہ توفیق عطا فرما دیں کہ ہم ہر آن اﷲ کی تعریف کرنے والے بن جائیں ہر گھڑی اﷲ کا شکر ادا کرنے والے بن جائیں ۔
ہر لمحہ یادِ الٰہی:
بعض علماء نے یہ بات لکھی ہے کہ اﷲ کے نبی ﷺ ہر لمحہ اﷲ کی تعریف کیا کرتے تھے۔ صرف ایک ہی موقع آتا تھا کہ آپ اﷲ کی تعریف نہیں کیا کرتے تھے، وہ موقع یہ ہوتا تھا کہ اﷲ کے نبیw بیت الخلاء میں ہیں، اس وقت ادب کا تقاضہ یہ تھا کہ گندگی کی جگہ اﷲ کا نام نہ لیا جائے۔ اس لیے اس ادب کو پورا کرنے کے لیے اﷲ کے نبی wجب بیت الخلاء میں جاتے اس وقت اﷲ کی تعریف نہیں کیا کرتے تھے۔ لیکن وہ وقت کتنا ہوتا ہے؟ 10 سے 15 منٹ، اتنا وقت ہوتا ہے اس سے زیادہ وقت نہیں ہوتا۔ لیکن احادیث کی کتابوں میں آتا ہے کہ اﷲ کے نبی wجب باہر تشریف لاتے تھے بیت الخلاء وغیرہ سے یا جہاں بھی آپ قضائے حاجت کے لیے جاتے تھے وہاں سے جب باہر تشریف لاتے تھے تو فرماتے غفرانک اے اﷲ یہ وقت بغیر آپ کے عمل کے گزر گیا، آپ کا شکر ادا کیے بغیر گزر گیا اے اﷲ میں آپ سے معافی طلب کرتا ہوں یعنی اس وقت بھی اﷲ سے معافی طلب ہورہی ہے اور پھر فرماتے تھے ’’الحمد ﷲ الذی أذھب عن الأذی و عافانی‘‘ تمام تعریفیں اس اﷲ ہی کی ہیں جس نے مجھے عافیت عطا فرمائی ہے اور ہر قسم کی گندگی سے مجھے بچایا ہے۔
ہم سب کو بھی چاہیے کہ اﷲ کے نبی wکا یہ اُسوہ اپنائیں۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ طریقہ اپنی زندگی میں لائیں اسی طرح جب اﷲ کے نبیﷺ حاجت کے لیے جارہے ہیں تو دُعا پڑھ رہے ہیں : ’’اللّٰھم إنی أعوذ بک من الخبث و الخبائث‘‘ اے اﷲ میں تیری پناہ مانگتا ہوں جہاں میں جارہا ہوں وہاں جنات کا اثر زیادہ ہوتا ہے خبیث جنیاں اور جنات انسان کو زیادہ تنگ کیا کرتے ہیں اے اﷲ! وہاں حفاظت آپ ہی کرسکتے ہیں آپ کے علاوہ کوئی نہیں کرسکتا اس لیے میں آپ کی پناہ میں آتا ہوں۔ یعنی حاجت میں جانے سے پہلے اﷲ کے نبی ﷺ اﷲ کی پناہ میں آتے ہیں۔
ناپاکی کے نقصانات:
پھر ہمیں بھی سبق یہ دیا کہ اکثر جنات اور جنیات حملہ اس وقت کرتی ہیں کہ جب تم گندگی کے لیے پیشاب پاخانہ کے لیے بیٹھتے ہو۔ وجہ یہ ہے کہ انسان جب گندہ ہوتا ہے تو یہ گندے اثرات جلدی قبول کر لیتا ہے۔ اس لیے جتنے جادوگر عمل کرتے ہیں ان کا کام ہی یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنا جادو دکھانے کے لیے جنات سے مدد مانگتے ہیں اور جتنا جن کو راضی کرے گا اتنا اس کا جادو زیادہ اثر کرے گا اور اس کو اپنا جادو کرنے کے لیے ہر گندگی اختیار کرنا پڑتی ہے اﷲ معاف فرمائے یہاں تک سنا گیا ہے کہ بعض جادوگر جادو کرنے کے بعد پاخانہ کھاتے ہیں اور شراب پینا یہ تو ان کا عام مشغلہ ہوتا ہے یہاں تک کہ پیشاب پیتے ہیں بکروں کو ذبح کرکے ان کا خون پیتے ہیں یعنی جتنے حرام کام ہیں وہ جتنا زیادہ کرتے ہیں اتنا ہی اثر ان کا زیادہ ہوتا ہے۔ اس لیے معلوم ہوا کہ گندگی جنات اور شیاطین کو تو پسند ہے۔ لیکن اﷲ جل شانہ اور اس کے فرشتے اور اﷲ کے رسول پاکی کو پسند کرتے ہیں گندگی کو بالکل پسند نہیں کرتے۔
طہارت کی اہمیت:
علماء نے ایک عجیب بات لکھی ہے کہ اﷲ نے اپنے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو جب نبوت عطا فرما دی اور نبوت عطافرمانے کے بعد 3 سال تک وحی بند رہی پھر 3 سال کے بعد وحی آنا شروع ہوگئی تو اﷲ نے سب سے پہلے جو حکم دیا: ’’یا أیھا المدثر‘‘ اے کملی اوڑھنے والے ’’قم‘‘ کھڑے ہوجائیے’’فانذر‘‘ اور لوگوں کو اﷲ کی طرف بلا اور ڈرا جہنم سے ۔ پھر فرمایا : ’’وربک فکبر‘‘ اے نبی اپنے رب کی بڑائی بیان کرتے ہی رہیے۔ پھر تیسرا حکم جو اﷲ نے اپنے نبی کو دیا ہے وہ یہ ہے کہ ’’فثیا بک فطھر‘‘ اے نبی اپنے کپڑوں کو پاک رکھیے کہ کپڑوں کی صفائی سے ایسے اثرات پڑتے ہیں کہ فرشتے سے آپ کا تعلق ہے فرشتہ آپ کے پاس آتا ہے اور کسی وقت بھی آسکتا ہے تو جتنی ناپاکی ہوگی فرشتہ اتنا ہی دور جائے گا۔اس لیے جتنی پاکی ہوتی ہے اتنا فرشتہ قریب آئے گا۔
معلوم ہوا کہ نہ نماز کا حکم ملا نہ روزہ کا حکم ملا ہے کوئی بھی حکم نہیں ملا۔ سب سے پہلے حکم اﷲ کی بڑائی بیان کرنے کا ملا ہے کہ اﷲ کی بڑائی بیان ہو اور یہ کہا جائے کہ اﷲ اکبر اﷲ سب سے بڑے ہیں۔ یہ اﷲ کے بڑائی کے بول ہیں۔ یہ حکم پہلے دیا گیا اور بعد میں کہا گیا ’’فثیابک فطھر‘‘ اپنے کپڑوں کو پاک رکھیے۔ (سورہ مدثر: آیت ۱۔۴)
وساوس کیوں آتے ہیں؟
عام طور پر بعض لوگ شکوہ کیا کرتے ہیں کہتے ہیں کہ نماز میں دل نہیں لگ رہا اور نماز میں وسوسے بہت آتے ہیں، اور خیالات ادھر ادھر چلے جاتے ہیں اور نماز میں استقامت نہیں رہتی تو اس کی وجہ علماء نے یہی لکھی ہے کہ یا تو اس کے پیٹ میں ناپاک مال یعنی حرام مال ہے یا اس کا ظاہر ناپاک رہتا ہے کہ وہ کپڑے پاک نہیں رکھتا، بدن کو پاک نہیں رکھتا۔
یہ ایک بڑی وجہ ہوتی ہے وسوسوں کے آنے کی، نماز کے چھوڑنے کی، دین سے دور ہونے کی۔ اس لیے اﷲ J نے یہ حکم اپنے نبیوں کو بھی دیا ہے۔ بلکہ پوری انسانیت کو دیا ہے اور پوری انسانیت کو کہا ہے: (یا یھا الناس کلوا مما فی الارض حللا طیبا (بقرہ: آیت ۱۶۸) اے لوگو! پاکیزہ چیزیں کھایا کرو۔ ناپاک حرام چیزیں نہ کھایا کرو۔ پوری انسانیت کو خطاب کیا ہے ۔ اور اسی طرح ایمان والوں کو بھی کہا : ’’یآیھا الذین اٰمنو کلو من طیبات ما رزقنٰکم‘‘(البقرۃ: آیت ۱۷۲)اے ایمان والو !پاکیزہ چیزیں کھایا کرو۔
اﷲ نے عام لوگوں کو بھی حکم یہی دیا ایمان والو ں کو بھی یہی حکم دیا بلکہ اس سے بڑھ کر اپنے رسولوں کو بھی یہی کہا: ’’یآیھا الرسل کلو من الطیبات‘‘ (المومنون : آیت ۵۱)اے رسولو! پاکیزہ چیزیں کھایا کرو۔
معلوم ہوا یہ ایسا اہم حکم ہے اگر ہدایت لینی ہے تو ہدایت ملتی ہے پاکیزہ چیزیں کھانے سے۔ جتنی پاکیزہ چیزیں کھائی جائیں گی ہدایت قبول کرنا آسان ہوگا۔
ناپاک مال:
اس لیے میرے دوستو! اﷲ ہمیں پاکیزہ مال کھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ حرام مال سب ناپاک ہے۔ اتنا ناپاک ہے کہ علماء نے یہ مسئلہ لکھا ہے کہ ایک آدمی رشوت لیتا ہے، ایک آدمی سود لیتا ہے۔ اب سود میں اس کے پاس 5 لاکھ روپے آگئے۔ یا سٹہ کھیلا یا جوا کھیلا یا انعامی بونڈ خرید لیا اور اس میں 5 لاکھ کا انعام نکل آیا۔ اسی طرح رشوت لی یا جھوٹ بول کر کمایا اور کما کر لوگوں کو دھوکہ دیا اور کما کر وہ حرام مال جمع کرتا رہا اب 5 لاکھ روپیہ اس کے پاس جمع ہوگیا۔ عام طور پر جس پر 2 یا 3 لاکھ روپے جمع ہوجائیں اس پر حج فرض ہوا کرتا ہے لیکن اس حرام مال والے پر حج فرض نہیں ہے۔
وہ اس لیے کہ حرام مال اﷲ قبول کرتے ہی نہیں ہیں۔ جب اﷲ قبول کرتے ہی نہیں تو اس آدمی کا حج پر جانا فرض بھی نہیں اس پر زکوٰۃ بھی فرض نہیں ہے کیونکہ حرام مال کا حکم تو یہ ہے کہ جتنا مال آیا ہے وہ سارا مال غریب کو بغیر ثواب کی نیت کے دے دیا جائے۔ اس پر ثواب کی نیت بھی نہ کی جائے۔
علماء نے یہ مسئلہ لکھا ہے کہ اگر حرام مال پر کسی نے ثواب کی نیت کر لی تو اس کا خطرہ ہے کہ کافر نہ بن جائے ۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ اس نے اﷲ جل شانہ کے حکم کی خلاف ورزی کر کے سود لے کر سمجھا یہ کہ مجھے ثواب ملے گا اور اس پر مجھے ثواب دیا جائے گا۔ یہ معاذ اﷲ! اﷲ پر بہت بڑا بہتان ہے۔ اس لیے فرمایا کہ خطرہ ہے کہ کافر نہ ہو جائے وہ آدمی۔
صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ وہ سارا مال غریب کو بغیر ثواب کی نیت سے دیا جائے۔
اﷲ نے ایسے احکام دیے ہیں ہمیں کہ ہم اگر اس پر عمل کر لیں گے ایک تو عبادت پر استقامت ملے گی اﷲ کا قرب ملے گااور دنیا میں حفاظت ہوگی جنات وغیرہ اثر نہیں کریں گے وساوس نہیں آئیں گے نماز پر استقامت ملے گی طرح طرح کے خیالات نہیں آئیں گے اور پھر یہ مال باقی رہے گا۔ کیونکہ حرام مال کبھی باقی نہیں رہتا۔ اﷲ اس کو مٹا کر رکھتے ہیں۔
اس لیے میرے دوستو! اگر ہم یہ چاہیں کہ ہمارا مال باقی رہے، ہمارا کاروبار چلتا رہے، ہمارا لین دین صحیح رہے اور ہم کھاتے پیتے رہیں تو اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ حلال کمانے کی جرأت کی جائے کہ اﷲ ہمیں حلال کمانے کی توفیق دے دے۔ ہم حرام سے بچنے کی کوشش کریں۔ تو جتنا حرام سے بچیں گے ان شاء اﷲ اﷲ کاروبار میں برکت دیں گے اور وساوس سے محفوظ رکھیں گے۔ شیاطین کے حملے اس پر کم ہوں گے۔
نیک عامل:
میں نے بتایا کہ اکثر شیاطین کا حملہ ناپاکی میں ہوتا ہے اور جتنے نیک عامل ہیں ان میں اکثر ہوتا یہ ہے کہ دین دار عامل سے جنات ناراض ہوتے ہیں کیونکہ وہ ان پر عمل کرتا ہے اور جنات کو پریشانی ہوتی ہے اور جنات عام طور پر چاہتے ہیں کہ اس کا نقصان کریں۔ اس لیے صحیح عامل پیشاب وغیرہ سے فارغ ہونے کے بعد سب سے پہلے وضو کرتے ہیں اور وضو کرکے جنات کے حملوں سے اپنے آپ کو محفوظ کرتا ہے۔
لیکن بعض دفعہ ہوتا یہ ہے کہ عامل وغیرہ کی اولاد کو جنات مار دیتے ہیں کیونکہ وہ جنات پر عمل کرتا ہے تو جنات اس کی اولاد کو مار دیتے ہیں۔ اکثر یہ ہی ہوتا ہے۔ لیکن اس کا حملہ زیادہ اسی وقت ہوتا ہے جب ناپاکی زیادہ ہو۔ اور جتنی پاکی ہوگی وہ حملہ اتنا ہی کم ہوگا۔
اس لیے اﷲ ہمیں بھی پاک رہنے کی توفیق عطا فرما دیں اور اﷲ کا شکر ادا کرنے کی بھی توفیق عطا فرمادیں۔ کیونکہ ہر آن ہر لحظہ اﷲ کی نعمتیں ہم پر آرہی ہیں۔ کوئی ایک گھڑی بھی ہم اﷲ کی نعمتوں سے خالی نہیں ہیں۔ ہمیں سانس آرہا ہے یہ بھی اﷲ کی نعمت ہے۔ کتنے لوگ ہیں کھانا کھا رہے تھے لقمہ پھنسا اور وہیں موت آگئی۔ یعنی اگلا سانس نہیں آسکا۔ یہ اگلا سانس ہمیں آجاتا ہے اور اﷲ ہماری حفاظت فرما دیتے ہیں اور ہم دوبارہ صحیح ہوجاتے ہیں۔ لیکن اﷲ کے لیے کیا مشکل ہے؟ وہ حکم دے دے تو سانس ہمارا وہیں رک جائے اﷲ اس پر قادر ہیں اس لیے ہر آن اﷲ کا شکر ادا کیا جائے اور اس کی نعمتوں کی ہر آن قدر کی جائے نا شکری نہ کی جائے گناہوں سے بچا جائے حلال کھانے کی فکر کی جائے اﷲ ہم سب کو یہ توفیق عطا فرمائے اﷲ ہم سب کو گناہوں سے بچائے اﷲ ناپاکی سے محفوظ رکھے اور اﷲ اپنا ذکر کرنے والا بنائے اور اپنے کو یاد کرنے والا بنائے۔
(آمین)