نقشوں اور قبلہ نما کا استعمال

نقشوں اور قبلہ نما کا استعمال

اس زمانے میں عموماً اوقات ِ نماز کا تعین اوقات ِ نماز کے لیے بنائے گئے نقشوں سے ہوتا ہے اور ان نقشوں کی بنیاد علم ِفلکیات کے حسابی قواعد پر ہوتی ہے،اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ وسائل اور ذرائع مقصود نہیں ہوتے، اصل مقصود عبادات ہیں۔ اسلام نے اوقات کی بنیاد آفتابی سایوں، طلوع و غروب، شفق اور ظاہری آثار پر رکھی ہے، اس لیے کہ یہ ایسے معیار ہیں جن کا سمجھنا ہر خاص و عام کے لیے آسان ہے۔ مگر ان کی حیثیت فقط علامات کی ہے، اگر کسی دوسرے ذریعہ سے غالب گمان ہو جائے کہ شریعت کا مطلوبہ وقت آپہنچا ہے تو اس پرعمل کرلینا کافی ہو گا، تقویم کی یہی حیثیت ہے اور جدید ترقی یافتہ فلکیات کم از کم اس بات کا ظن غالب پیدا کرنے کے لیے کافی ہے۔

اسی طرح سمت ِ قبلہ کی تعیین کے لیے بھی مختلف ذرائع استعمال کیے جاتے ہیں،مثلاً: سایے اور ستارے وغیرہ، ان ذرائع سے بھی اندازہ کر کے قبلہ کا رُخ متعین کیا جاتا ہے، قبلہ نما سے بھی سمت ِ قبلہ معلوم کی جاتی ہے، اگر چہ وہ بھی تقریبی ہوتی ہے مگر اس سے غالب گمان حاصل ہو جاتا ہے، لہٰذا سمت ِ قبلہ کی تعیین کے لیے قبلہ نما کا استعمال درست ہے۔) جدید فقہی مسائل : ۶۳ )

اپنا تبصرہ بھیجیں