نظر کا چشمہ ہٹانے کے لیے آپریشن کے ذریعے لینز لگوانا۔

سوال : کیا چشمہ ہٹانے کے لیے آنکھوں کا آپریشن کرانا شرعی طور پر جائز ہے؟ حوالہ جات کے ساتھ جتنی جلدی ہوسکے بتادیجیئے میرا یہ آپریشن عنقریب ہی ہونا ہے ۔ آپریشن اس طرح ہوگا کہ میری آنکھیں بہت زیادہ کمزور ہیں میرا عام laser نہیں ہوسکتا تو میری آنکھوں کا قدرتی lens نکال کر ایک artificial lens لگا دیا جاےگا جو کہ فکس ہوگا پھر نکلے گا نہیں ۔ میں چشمہ بھی لگا سکتی ہوں لیکن چشمہ بہت موٹا بہت ہی موٹا بنتا ہے اور اس موٹے چشمہ کے باوجود میں سیدھی آنکھ سے بالکل نہیں دیکھتی ۔ ویسے تو سیدھی آنکھ میں روشنی ہے لیکن وہ الٹی آنکھ کے مقابلے میں زیادہ کمزور ہے اس لیے خود بخود ہی وہ آنکھ استعمال نہیں ہوتی سارا کام الٹی آنکھ کرتی ہے اگر الٹی آنکھ بند کردوں تو سیدھی آنکھ کام کرتی ہے لیکن اس سے بہت دھندلا نظر آتا ہے اس لیے چشمہ ہٹانے کے لیے کیا یہ آپریشن کرا سکتے ہیں؟؟؟ یہ علاج نہیں ہے ۔ یہ چشمہ سے نجات کا حل ہے۔ یاد رہے چشمہ کے باوجود سیدھی آنکھ نہیں دیکھ سکتی
اور چشمہ میں سیدھی آنکھ کا نمبر نہیں بن سکتا کیوں کہ دونوں انکھوں کے نمبروں میں فرق بہت زیادہ ہے ایک ساتھ اتنا فرق کا چشمہ نہیں لگا سکتے تو سیدھی انکھ کے آسل نمبر سے کچھ نمبر کم کے چشمہ بنتا ہے ۔ آپریشن کے ذریعہ دونوں آنکھوں کی کمزوریاں انکے نمبروں کے حساب سے پوری کی جاےنگی تو ممکن ہے کہ سیدھی آنکھ بھی دیکھنے لگے ۔براہ مہربانی اسکا جواب دے دیں کہ کیا آپریشن کرانا چاہیئے یا صبر کے ساتھ چشمہ لگانا چاہیئے؟

الجواب باسم ملھم الصواب
اگر نظر کی کمزوری کیلئے آپریشن کے ذریعے لینز لگوانا مجبوری ہے تو اسے لگوانے کی اجازت ہے، بشرطیکہ لینز کسی حلال چیز سے بنا ہو ، دوسرے یہ کہ اس کا مضر صحت نہ ہونا یقینی ہو ۔
نیز ! لینز آنکھ کے اندر لگتا ہے اور آنکھ کا اندرونی حصہ نہ وضو میں دھونا ضروری ہے اور نہ غسل میں؛ اس لیے لینز کے ساتھ وضو اور غسل بھی ہوجائے گا ۔
===============
حوالہ جات
1 ۔”عن عرفجة بن اسعد بن کریب قال: وكان جده , قال: حدثني انه راى جده اصيب انفه يوم الكلاب في الجاهلية، قال: فاتخذ انفا من فضة، فانتن عليه , فامره النبي صلى الله عليه وسلم ان يتخذه من ذهب”.
ترجمہ :
”عبدالرحمٰن بن طرفہ کہتے ہیں کہ انہوں نے دیکھا کہ جاہلیت میں جنگ کلاب کے دن ان کے دادا (عرفجہ بن اسد رضی اللہ عنہ) کی ناک کٹ گئی، تو انہوں نے چاندی کی ناک بنوائی، پھر اس میں بدبو آ گئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ سونے کی ناک بنوا لیں “۔

2 ۔ ” قولہ: ”لا غسل باطن العینین الخ“:؛ لأنہ شحم یضرہ الماء الحار والبارد، ولھذا لو اکتحل بکحل نجس لا یجب غسلہ۔۔۔۔۔۔و لایجب غسل ما فیہ حرج کعین وإن اکتحل بکحل نجس۔
قولہ: ”کعین“: لأن في غسلھما من الحرج ما لا یخفی؛ لأنھا شحم لا تقبل الماء“۔
(الدرالمختار مع ردالمحتار: کتاب الطہارہ، 284 /1)۔

3 ۔ ”وإدخال الماء في داخل العینین لیس بواجب؛ لأن داخل العینین لیس بوجہ؛ لأنہ لا یواجہ إلیہ، ولأن فیہ حرجاً (بدائع الصنائع: 67/1 ،ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔

واللہ اعلم بالصواب۔
15 شعبان 1444
7 مارچ 2023۔

اپنا تبصرہ بھیجیں