اویس قرنی حدیث کی تحقیق

سوال:حضرات مفتیان کرام یہ بتائیں کہ کیا حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہما سے فرمایا تھا کہ حضرت اویس قرنی سے دعا کرانا؟اس واقعہ کی کیا حیثیت ہے اور کیا یہ قابل بیان ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا

الجواب حامدا ومصلیا

مذکورہ واقعہ حدیث کی مستند کتاب صحیح مسلم   میں موجود ہے  ،البتہ حضور ﷺ نے کسی خاص صحابی سے مخاطب ہو کہ ان کا ذکر نہیں فرمایا تھا بلکہ تمام صحابہ کی جماعت سے یہ بات فرمائی تھی جس میں   عمر  و علی رضی اللہ تعالی عنہما   بھی  ضمنا شامل تھے    حضرت عمر رضی اللہ  عنہ کا  ان سے ملاقات کرنا اور ان سے   دعا کروانا بھی  مذکور ہے ،مذکورہ حدیث صحیح ہے لہذا اسے درج ذیل تفصیلات کے ساتھ بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں ،واقعہ یہ ہے:

“عَنْ أُسَيْرِ بْنِ جَابِرٍ، قَالَ: كَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِذَا أَتَى عَلَيْهِ أَمْدَادُ أَهْلِ الْيَمَنِ، سَأَلَهُمْ: أَفِيكُمْ أُوَيْسُ بْنُ عَامِرٍ؟ حَتَّى أَتَى عَلَى أُوَيْسٍ فَقَالَ: أَنْتَ أُوَيْسُ بْنُ عَامِرٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: مِنْ مُرَادٍ ثُمَّ مِنْ قَرَنٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَكَانَ بِكَ بَرَصٌ فَبَرَأْتَ مِنْهُ إِلَّا مَوْضِعَ دِرْهَمٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: لَكَ وَالِدَةٌ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «يَأْتِي عَلَيْكُمْ أُوَيْسُ بْنُ عَامِرٍ مَعَ أَمْدَادِ أَهْلِ الْيَمَنِ، مِنْ مُرَادٍ، ثُمَّ مِنْ قَرَنٍ، كَانَ بِهِ بَرَصٌ فَبَرَأَ مِنْهُ إِلَّا مَوْضِعَ دِرْهَمٍ، لَهُ وَالِدَةٌ هُوَ بِهَا بَرٌّ، لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللهِ لَأَبَرَّهُ، فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ يَسْتَغْفِرَ لَكَ فَافْعَلْ» فَاسْتَغْفِرْ لِي، فَاسْتَغْفَرَ لَهُ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: أَيْنَ تُرِيدُ؟ قَالَ: الْكُوفَةَ، قَالَ: أَلَا أَكْتُبُ لَكَ إِلَى عَامِلِهَا؟ قَالَ: أَكُونُ فِي غَبْرَاءِ النَّاسِ أَحَبُّ إِلَيَّ. قَالَ: فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْعَامِ الْمُقْبِلِ حَجَّ رَجُلٌ مِنْ أَشْرَافِهِمْ، فَوَافَقَ عُمَرَ، فَسَأَلَهُ عَنْ أُوَيْسٍ، قَالَ: تَرَكْتُهُ رَثَّ الْبَيْتِ، قَلِيلَ الْمَتَاعِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «يَأْتِي عَلَيْكُمْ أُوَيْسُ بْنُ عَامِرٍ مَعَ أَمْدَادِ أَهْلِ الْيَمَنِ مِنْ مُرَادٍ، ثُمَّ مِنْ قَرَنٍ، كَانَ بِهِ بَرَصٌ فَبَرَأَ مِنْهُ، إِلَّا مَوْضِعَ دِرْهَمٍ لَهُ وَالِدَةٌ هُوَ بِهَا بَرٌّ، لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللهِ لَأَبَرَّهُ، فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ يَسْتَغْفِرَ لَكَ فَافْعَلْ» فَأَتَى أُوَيْسًا فَقَالَ: اسْتَغْفِرْ لِي، قَالَ: أَنْتَ أَحْدَثُ عَهْدًا بِسَفَرٍ صَالِحٍ، فَاسْتَغْفِرْ لِي، قَالَ: اسْتَغْفِرْ لِي، قَالَ: أَنْتَ أَحْدَثُ عَهْدًا بِسَفَرٍ صَالِحٍ، فَاسْتَغْفِرْ لِي، قَالَ: لَقِيتَ عُمَرَ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَاسْتَغْفَرَ لَهُ، فَفَطِنَ لَهُ النَّاسُ، فَانْطَلَقَ عَلَى وَجْهِهِ، قَالَ أُسَيْرٌ: وَكَسَوْتُهُ بُرْدَةً، فَكَانَ كُلَّمَا رَآهُ إِنْسَانٌ قَالَ: مِنْ أَيْنَ لِأُوَيْسٍ هَذِهِ الْبُرْدَةُ” صحيح مسلم (4/ 1969)

“ترجمہ:حضرت اسیر بن جابر  ؓ  سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب  ؓ  کے پاس جب بھی یمن سے کوئی جماعت آتی تو حضرت عمر  ؓ  ان سے پوچھتے کہ کیا تم میں کوئی اویس بن عامر ہے یہاں تک کہ ایک جماعت میں حضرت اویس آگئے تو حضرت عمر  ؓ  نے پوچھا کیا آپ اویس بن عامر ہیں؟ انہوں نے کہا جی ہاں حضرت عمر  ؓ  نے فرمایا کیا آپ قبیلہ مراد سے اور قرن سے ہو؟ انہوں نے کہا جی ہاں حضرت عمر  ؓ  نے فرمایا کیا آپ کو برص کی بیماری تھی جو کہ ایک درہم جگہ کے علاوہ ساری ٹھیک ہوگئی انہوں نے فرمایا جی ہاں حضرت عمر  ؓ  نے فرمایا کیا آپ کی والدہ ہیں انہوں نے کہا جی ہاں حضرت عمر  ؓ  نے فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ فرما رہے تھے کہ تمہارے پاس حضرت اویس بن عامر یمن کی ایک جماعت کے ساتھ آئیں گے جو کہ قبیلہ مراد اور علاقہ قرن سے ہوں گے ان کو برص کی بیماری ہوگی پھر ایک درہم جگہ کے علاوہ صحیح ہو جائیں گے ان کی والدہ ہوگی اور وہ اپنی والدہ کے فرمانبردار ہوں گے اگر وہ اللہ تعالیٰ پر قسم کھالیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم پوری فرما دے گا اگر تم سے ہو سکے تو ان سے اپنے لئے دعائے مغفرت کروانا۔ تو آپ میرے لئے مغفرت کی دعا فرما دیں۔ حضرت اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عمر  ؓ  کے لئے دعائے مغفرت کر دی۔ حضرت عمر  ؓ  نے فرمایا اب آپ کہاں جانا چاہتے ہیں؟ حضرت اویس رحمۃ اللہ علیہ فرمانے لگے کوفہ۔ حضرت عمر  ؓ  نے فرمایا کیا میں وہاں کے حکام کو لکھ دوں۔ حضرت اویس رحمۃ اللہ علیہ فرمانے لگے کہ مجھے مسکین لوگوں میں رہنا زیادہ پسندیدہ ہے۔ پھر جب آئندہ سال آیا تو کوفہ کے سرداروں میں سے ایک آدمی حج کے لئے آیا تو حضرت عمر  ؓ  نے ان سے حضرت اویس رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں پوچھا تو وہ آدمی کہنے لگا کہ میں حضرت اویس کو ایسی حالت میں چھوڑ کر آیا ہوں کہ ان کا گھر ٹوٹا پھوٹا اور ان کے پاس نہایت کم سامان تھا حضرت عمر  ؓ  نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ فرما رہے تھے کہ تمہارے پاس یمن کی ایک جماعت کے ساتھ حضرت اویس بن عامر آئیں گے جو کہ قبیلہ مراد اور علاقہ قرن سے ہوں گے ان کو برص کی بیماری ہوگی جس سے سوائے ایک درہم کی جگہ کے ٹھیک ہو جائیں گے ان کی والدہ ہوں گی وہ اپنی والدہ کے فرمانبردار ہوں گے اگر وہ اللہ تعالیٰ پر قسم کھا لیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم پوری فرما دے اگر آپ سے ہو سکے تو ان سے اپنے لئے دعائے مغفرت کروانا تو اس آدمی نے اسی طرح کیا کہ حضرت اویس رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں آیا اور ان سے کہا: میرے لئے دعائے مغفرت کردیں۔ حضرت اویس رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تم ایک نیک سفر سے واپس آئے ہو تم میرے لئے مغفرت کی دعا کرو۔ اس آدمی نے کہا کہ آپ میرے لئے مغفرت کی دعا فرمائیں۔ حضرت اویس رحمۃ اللہ علیہ پھر فرمانے لگے کہ تم ایک نیک سفر سے واپس آئے ہو، تم میرے لئے دعائے مغفرت کرو۔ حضرت ایوس رحمۃ اللہ علیہ نے اس آدمی سے پوچھا کہ کیا تم حضرت عمر سے ملے تھے ؟ اس آدمی نے کہا ہاں۔ تو پھر حضرت اویس رحمۃ اللہ علیہ نے اس آدمی کے لئے دعائے مغفرت فرما دی۔ پھر لوگ حضرت اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ کا مقام سمجھے۔ راوی اسیر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت اویس کو ایک چادر اوڑھا دی تھی تو جب بھی کوئی آدمی حضرت اویس کو دیکھتا تو کہتا کہ حضرت اویس کے پاس یہ چادر کہاں سے آگئی“

اپنا تبصرہ بھیجیں