پاکستان کی خارجہ پالیسی۔ بارھویں قسط

پاک افغان تعلقات۔ آخری حصہ

دشت لیلیٰ قتل عام

قندوز سب سے آخر میں طالبان کے ہاتھ سے نکلنے والا شہر تھا۔ سقوط کابل کے دس دن بعد تک طالبان نے اسے اپنے کنٹرول میں رکھا تھا اور یہی ان کی مہلک ترین غلطی ثابت ہوا۔ قندوز کے شمال میں تخار، جنوب میں مزار شریف، مشرق میں بغلان اور مغرب میں تاجکستان ہے۔ طالبان کی چودہ ہزار لڑاکا فورس اس شہر میں محصور ہو کر رہ گئی۔ 23 نومبر 2001ء کو طالبان نے ہتھیار ڈالنے کا اعلان کیا۔ شہر سے باہر آنے والی ایک سڑک کھولی گئی اور اس سڑک پر چار پوائنٹ بنائے گئے۔ پہلے پوائنٹ پر ہر شخص اپنے ہتھیار حوالے کرتا، دوسرے پر نام اور پتہ لکھواتا، تیسرے پر تمام کپڑے اتارے جاتے اور چوتھے پر کپڑے پہنا کر گرفتار کرکے کنٹینر میں چڑھا دیا جاتا۔ آخری دونوں پوائنٹس امریکیوں کے تھے۔ پچاس سے ساٹھ کنٹینروں میں یہ چودہ ہزار قیدی اس طرح ٹھونس کرسیل کر دئے گئے کہ ان کے لئے سانس لینا ہی ممکن نہ رہا۔ بظاہر کہا گیا کہ انہیں جنوب مغرب میں واقع شبر غان جیل لے جایا جا رہا ہے لیکن اگلے دن یہ یاقافلہ شبرغان پہنچ کر بائیں ہاتھ گھوم گیا اور شبرغان و ترکمانستان کے مابین واقع افغان صحراء “دشتِ لیلیٰ” میں داخل ہو گیا۔ انہیں یقین تھا کہ تمام قیدی دم گھٹنے سے مر چکے ہونگے لیکن پھر بھی انہوں کنٹینر بجا کر تصدیق شروع کردی۔ جس کنٹینر میں ہل جل کے آثار ملتے اس پر اینٹی ایئر کرافٹ گنوں سے فائر کھولدیا جاتا۔ بلڈوزر اس قافلے کی آمد سے قبل ہی اجتماعی قبریں تیار کر چکے تھے۔ چودہ ہزار لاشیں اس صحراء میں دفن کردی گئیں۔ خدا کا کرنا دیکھئے ان میں سے بیس زندہ بچ گئے تھے جو ریت میں سے نکل آئے اور اپنے ساتھیوں تک رسائی حاصل کرکے بھانڈہ پھوڑ دیا۔ یہ خبر سب سے پہلے مغربی میڈیا نے بریک کی اور آج تک وہ امریکی حکومت پر دباؤ جاری رکھے ہوئے ہے کہ اس قتل عام کی وسیع پیمانے پر تحقیقات کرائی جائیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن نے اس پر کام شروع کیا مگر یہ شرمناک دعویٰ کیا کہ صرف پندرہ سو کے لگ بھگ قیدی مارے گئے تھے اور یہ کہ ہم ابھی تحقیقات کر رہے ہیں۔ 2009ء میں باراک اوباما نے اس کی باقاعدہ تحقیقات کا حکم دیا اور 2013ء میں امرکی حکومت نے اعلان کیا کہ تحقیقات مکمل ہو گئی ہیں، رپوٹ جاری نہیں کی جائیگی بس ہم اتنا بتا رہے ہیں کہ اس قتل عام میں کوئی امریکی ملوث نہیں تھا حالانکہ یہ قتل عام امریکہ اور رشید دوستم نے مل کر کیا تھا۔ امریکی صدر گاڑی سے اتر کر برگر خریدلے، برطانوی وزیر اعظم پھٹا موزہ پہن لے یا کسی یورپی ملک میں کوئی سلبرٹی بندر کا بوسہ لے لے تو پاکستان کی موم بتی مافیا اس کی تصویریں شیئر کر کر کے ہمیں ان کی “انسانیت” کا اعلیٰ معیار دکھانے کی کوشش کرتی ہے۔ جی کرتا ہے اپنی فرینڈ لسٹ پر موجود بعض ڈیڑھ بالشتیوں کے نام لے کر ان سے پوچھوں کہ انسانیت کی قوالی تو آپ خوب گاتے ہیں لیکن کیا تیرہ سال میں کبھی دشت لیلی کے قتل عام پر بات کرنے کی توفیق آپ کو ہوئی ؟

پچھلے تیرہ سال
ـــــــــــــــــ

افغانستان میں کھیل ابھی ختم نہیں ہوا لھذا اب میں قدرے واضح اشاروں کنایوں میں چلونگا لیکن تفصیل نہیں بتاؤگا۔ جنہیں سمجھ آجائیں ان کی قسمت اور جو نہ سمجھ سکیں ان کی بھی اپنی قسمت۔

(01) پاکستانی ادارے بہت اچھی طرح جانتے تھے کہ نائن الیون کیوں اور کیسے ہوا اور امریکہ کی افغانستان آمد کے مقاصد کیا ہیں۔ لھذا اس بات کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ امریکہ کو افغانستان میں کامیاب ہونے دیا جائے اور اپنے باڈر پر کوریا، جاپان اور جرمنی کی طرح ستر یا اس سے زائد برسوں کے لئے امریکی اڈے بننے دیئے جائیں۔

(02) چار ہزار سال سے اپنی عقل و دانش کے حوالے سے شہرت رکھنے والوں کا بھی مشورہ تھا کہ آنے والے کو آنے دیا جائے اور اس کے گھٹنوں تک دھنسنے کا انتظار کیا جائے۔ جب دھنس جائے تو پھر اسے گدگدیاں بھی کی جائیں اور چٹکیاں بھی بھری جائیں اور اسے اتنا مجبور کردیا جائے کہ وہ واپسی کے لئے بھی آپ ہی کی مدد کا محتاج ہو کر رہ جائے۔

(03) افغان طالبان یا انکے امیر ملا عمر نے تیرہ برسوں میں ایک بار بھی پاکستان کے خلاف کوئی بیان نہیں دیا۔

(04) اگر ہم اپنے شہر میں کسی کو دوچار تھپڑ رسید کرنے جائیں اور اس کام کے لئے دوچار دوستوں کو ساتھ لے جانا چاہیں اور ایک گھنٹے میں دو چار تھپڑ مار کر لوٹ آئیں تو یہ “آپریشن” بھی کم از کم دو تین سو روپے کا خرچہ تو مانگتا ہی ہے۔

(05) طالبان دنیا کے چوالیس ممالک سے لڑے اور اس جنگ پر امریکہ کے اب تک سولہ سو ارب روپے خرچ ہوچکے اور اس وقت بھی دس ملین ڈالر فی گھنٹہ کے حساب سے خرچ ہو رہے ہیں۔

(06) 2004ء کے اختتام تک امریکہ گھٹنوں تک دھنس گیا تھا اور اور گدگدیوں اور چٹکیوں کا عمل شروع ہو گیا تھا چنانچہ اس کے بعد والے سالوں میں ہر امریکی یہ کہتا سنا جا رہا تھا “دیکھ باز آجا میں چھوٹ گیا نا تو چھوڑونگا نہیں !” لیکن وہ چھوٹتا کیسے ؟

(07) 2009ء تک امریکہ کی دماغی حالت اتنی خراب کردی گئی کہ باراک اوباما نے اس سال افغانستان میں ایساف اور نیٹو کی کمان کرنے والے اپنے دو فور سٹار جنرل برطرف کردئے۔ آنے والے سالوں میں دو مزید فور سٹار جنرلز جبکہ دو میجر جنرلز بھی برطرف کئے اور پھر ایک دن اعلان کردیا کہ امریکی فوج تطہیر کا عمل چاہتی ہے۔ تحقیقات شروع کی گئیں کہ عراق اور افغانستان میں ہماری ناک کیوں کٹی ؟ رپوٹ آئی کہ جرنیلوں کو تو لڑکیوں اور ڈرگز کی لت لگی ہوئی ہے۔ اوباما نے ایک بڑا جھاڑو اٹھایا اور پھیرنا شروع کردیا۔ اب تک فوج سے 197 ہائی رینکنگ افسران کو برطرف کیا جاچکا ہے۔

(08) 2009ء میں امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد میں خطاب کیا تو سوال جواب کے سیشن میں ایک کیپٹن نے اس سے سوال کیا “آپ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے خلاف ؟” یہ وہی سوال تھا جو نائن الیون کے فوری بعد پاکستان کو دھمکی دیتے ہوئے پوچھا گیا تھا۔

(10) 2010ء میں امریکہ نے پاکستان سے مطالبہ شروع کیا کہ طالبان سے ہمارا رابطہ کروایا جائے ہم بات کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان نے حیلے بہانے شروع کئے تو برطانوی ایجنسی ایم آئی 6 نے از خود کوششیں شروع کردیں اور پھر 2011ء میں وہ شرمناک سکینڈل سامنے آیا جس میں کویٹہ کا ایک دکاندار اہم طالبان کمانڈر بن کر ان سے خفیہ مذاکرات کرتا رہا اور ایک دن چھ ملین پاؤنڈز لے کر غائب ہوگیا۔ یہ بندہ آج تک ملا نہیں۔

(11) بظاہر تو آئی ایس آئی نے ریمنڈ ڈیوس والے معاملے میں قوم کی ناک کٹوائی تھی پھر برطانوی اخبار گارجین نے اسے امریکی دفتر خارجہ کی 186 سالہ تاریخ کی سب سے بڑی ناکامی کیوں قرار دیا ؟ ایسا کیا ہوا تھا کہ پورا مغربی میڈیا پاکستان کے بجائے امریکی حکومت کو طعنے دے رہا تھا ؟ انہی دنوں جنرل پاشا کے دورہ جرمنی کے بعد جرمنی کے جاسوسی کے مسئلے پر امریکہ سے تعلقات کیوں بگڑنے شروع ہوئے ؟

(12) اگر پاکستان نے پچھلے تیرہ سال میں امریکہ سے مل کر افغان طالبان کو نقصان پہنچایا ہے تواخبارات اور ٹی وی چینلز پر یہ خبریں کیوں آتی ر ہیں کہ امریکہ نے پاکستان سے درخواست کی ہے کہ اس کے طالبان سے مذاکرات کروائے جائیں ؟ اگر پاکستان نے طالبان کو نقصان پہنچایا ہے تو ملا عمر پاکستان کی کیوں سنتے ہیں ؟ اور اگر پاکستان طالبان کو نقصان پہنچا رہا تھا تو سابق صدر حامد کرزئی کو تو خوش ہونا چاہئے تھا، وہ ہر وقت پاکستان کے خلاف زہر کیوں اگلتا رہتا تھا ؟ اور یہ کہ طالبان سے مذاکرات شروع کروانے پر موجودہ افغان صدر نے پاکستان کا شکریہ کیوں ادا کیا ؟

(13) آج کے افغانستان کی سیاسی صورتحال اس حد پاکستان کے کنٹرول میں ہے افغانستان کا صدر اپنے شہریوں سے بات چیت کے لئے پاکستان کے رحم و کرم پر ہے۔ چند ماہ قبل چائنا بھی اس سین پر اپنی باقاعدہ انٹری دے چکا حالانکہ درحقیقت وہ اکتوبر 2001ء سے ہی پوری طرح موجود تھا لیکن پس منظر میں۔ حتمی ہدف یہ ہے کہ ایک پر امن افغانستان ہوگا جہاں طالبان کی زیر قیادت قومی حکومت ہوگی اور چائنا اس کی تعمیر نو میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں