پاکستان کی خارجہ پالیسی۔ تیسری قسط

پاکستان کے لئے خطرناک ممالک

ــــــــــــــــــــــــــــــــ
(01) اسرائیل
(02) ایران
(03) بھارت
(04) امریکہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ

(01) موجودہ دنیا میں صرف دو ممالک ایسے ہیں جو مذہبی نظریے کی بنیاد پر وجود میں آئے ہیں۔ ایک پاکستان دوسرا اسرائیل۔ پاکستان ایک جمہوری، آئینی اور قانونی جد و جہد کے نتیجے میں وجود میں آیا ہے جبکہ اسرائیل دنیا کے ہر مہذب ضابطے کے مطابق ایک ناجائز ریاست ہے۔ یہ فلسطین کی مقبوضہ زمین ہے جس پر یہ ریاست کھڑی کی گئی۔ یہ قبضہ اسقدر سنگین جرم تھا کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے خود اسرائیل کے وجود کو چیلنج کرکے مشرق وسطیٰ کے لئے پاکستان کی خارجہ پالیسی کا رخ متعین کردیا تھا اور پاکستان اپنی پوری تاریخ میں اپنے بانی کے اس متعین کردہ رخ پر پورے تسلسل سے چلا آرہا ہے۔ چونکہ اسرائیل مسلسل مسلمانوں کی زمین قبضہ کرتا رہا اور صاف صاف ان عزائم کا اظہار کرتا آیا ہے کہ وہ اپنی ریاستی حدود کو لگ بھگ پورے مشرق وسطیٰ تک پھیلائے گا اور چونکہ اسرائیل نے نہرو کے دور میں ہی بھارت سے خفیہ تعلقات قائم کر لئے اور یہ تعلقات عسکری تعاون کے سوا کچھ نہ تھے اس لئے دو باتیں واضح ہوگئی تھیں۔ پہلی یہ کہ چودہ سو سال میں پہلی بار مسلمانوں کے دونوں مقدس ترین مقامات یعنی حرمین شریفین کو سنگین ترین خطرہ لاحق ہو گیا ہے اور خطرہ بھی ایسا جس کی پشت پناہی کے لئے دنیا کے دو طاقتور ترین ممالک امریکہ و برطانیہ اپنے تمام سیاسی، معاشی و عسکری وسائل کے ساتھ موجود ہیں۔ اگر پاکستان اس خطرے کے راستے میں کھڑا نہیں ہوتا تو اس کا اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنا ہی ایک مذاق سے زیادہ کچھ نہیں رہے گا۔ دوسری بات یہ کہ اسرائیل نے بھارت سے اپنے تعلقات خفیہ کیوں رکھے ہیں ؟ اور یہ صرف عسکری میدان میں کیوں پیش رفت کر رہے ہیں ؟

اس کی وجہ یہ تھی کہ اسرائیل کے وجود کو قائد اعظم اور مہاتما گاندھی دونوں نے ہی مسترد کیا تھا اور گاندھی جی کا موقف بڑا اصولی تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم تو مذہب کے نام پر معرض وجود میں آنے والے پاکستان کی مخالفت کرتے رہے ہیں تو ہم سے یہ توقع کیسے کی جاسکتی ہے کہ مذہب ہی کے نام پر وجود میں آنے والے اسرائیل کو قبول کر لینگے ؟۔ مگر ہوا یہ قائد اعظم کے انتقال کے بعد انکے جانشینوں نے تو اسرائیل کے حوالے سے اپنی پالیسی برقرار رکھی لیکن گاندھی جی کے بعد نہرو نے فورا پالیسی بدل کر اسرائیل کو تسلیم کر لیا اور باور یہ کرایا کہ بس تسلیم ہی کیا ہے سفارتی تعلقات ہم نہیں رکھ رہے جبکہ درحقیقت بہت ہی اعلیٰ سطح کے انتہائی خفیہ تعلقات قائم کر لئے گئے تھے اور پہلے ہی دن سے ان تعلقات میں عسکری تعاون سب سے اہم ایجنڈہ تھا۔ اس وقت تک بھارت کی صرف پاکستان سے دشمنی تھی اس چائنا سے ابھی اس کی کوئی بھی ٹسل شروع نہیں ہوئی تھی جو کہ معرض وجود میں ہی 1948ء کی پاک بھارت جنگ کے ایک سال بعد آیا تھا اور اگر ہم دیکھیں تو آگے چل کر اسرائیل کے چین سے بھی عسکری تعلقات قائم ہوئے جس سے ظاہر ہے کہ اسرائیل کے بھارت سے 1992ء تک چلنے والے خفیہ تعلقات کا تعلق صرف اور صرف پاکستان سے تھا۔ ان دو وجوہات کی بنیاد پر پاکستان نے اسرائیل کو اپنا دشمن نمبر ایک قرار دیدیااور طے کر لیا کہ جب بھی اسرائیل خود کو مزید وسعت دینے اور مسلمانوں کی زمین پر بتدریج قبضہ بڑھاتے بڑھاتے خود کو حرمین کے قریب لانے کی کوشش کرے گا تو پاکستان سفارتی و عسکری دونوں میدانوں میں مزاحمت کے لئے اترے گا۔

چنانچہ آگے چل کر دونوں عرب اسرائیل جنگوں میں پاکستان اسرائیل کے خلاف میدان جنگ میں آیا اور کوئی ڈھکا چھپا بھی نہیں آیا بلکہ اپنے اقدام کو دنیا پر واضح کر کے صاف میسج دیدیا کہ اسرائیل جس توسیع کے خواب دیکھ رہا ہے اس کے لئے اسے صرف عربوں سے ہی نہیں پاکستان سے بھی جنگ لڑنی ہوگی۔ اگر پاکستان اسرائیل کے حوالے سے یہ دو ٹوک اور جارحانہ موقف نہ رکھتا تو یقین کیجئے اسرائیل کب کا ان لولی پوپ ٹائم عرب ریاستوں کو ہڑپ کر چکا ہوتا۔ کیا دنیا نے دیکھا نہیں کہ پہلی عرب اسرائیل جنگ میں اس نے صرف ایک دن میں پوری کی پوری مصری فضائیہ کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا تھا۔ پاکستان اسرائیل کے حوالے سے کوئی جارحانہ عزائم نہیں رکھتا اس کے وجود اور اسکے قبضہ کئے ہوئے علاقوں کے حوالے سے پاکستان صرف سفارتی کوشش کی پالیسی پر کار بند ہے لیکن اگر وہ گریٹر اسرائیل بننے کی غرض سے اپنی موجودہ حدود سے نکلنے کی کوشش کرے گا تو حالات کے تقاضوں کے مطابق پاکستان کی تینوں مسلح افواج میں سے کسی ایک، کسی دو یا تینوں کو سعودی عرب میں اپنا منتظر پائے گا۔ حرمین کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی اتنی واضح اور دو ٹوک ہے کہ حالیہ بحران میں پاکستان نے نام لئے بغیر ایران پر بھی واضح کردیا ہے کہ سعودی سرحد اس کے اور پاکستان کے مابین ریڈ لائن کا درجہ رکھتی ہے جو بھی اس ریڈ لائن کو عبور کرے گا پاکستان کو اپنے تمام وسائل سمیت سعودی عرب میں موجود پائے گا۔ میں ذاتی طور پر اس بات پر فخر محسوس کرتا ہوں کہ اللہ نے حرمین کے تحفظ کا کلیدی کردار میرے وطن کے نصیب میں لکھا ہے اور ہماری مسلح افواج نہ صرف ارض وطن بلکہ بیت اللہ اور روضہ رسول ﷺ کی بھی سب سے مضبوط محافظ ہیں۔ یہ تو قدرت کے فیصلے ہیں ، کبھی ابابیلوں سے یہ ڈیوٹی لے لی جاتی ہے تو کبھی پاکستان آرمی کے نصیب میں یہ ذمہ داری لکھدی جاتی ہے۔ و للہ الحمد (جاری ہے)

اپنا تبصرہ بھیجیں