پڑوسی کے گھر یا مسجد میں لگے ہوئے درخت کے پھل کھانے کا حکم

سوال:پڑوسی کے گھر پھل کا درخت ہے اس کی شاخیں ھمارے گارڈن میں آرہی ہیں کیا ان شاخوں سے گرے ہوۓ پھل یا توڑ کر کھا سکتے ہیں؟

اسی طرح مسجد کے گارڈن میں لگے ہوئے درخت سے توڑ کر یا گرے ہوئے پھل کھا سکتے ہیں یا نہیں پھل ایسے ہی گر گر کر ضائع ہو رہے ہیں؟

الجواب باسم ملھم الصواب

آپ نے دو سوالات پوچھے ہیں:

1.پڑوسی کے درخت کے پھلوں کا حکم۔

2.مسجد کے پھلوں کا حکم۔

دونوں کے جوابات بالترتیب ملاحظہ ہوں:

1.پڑوسی کے گھرمیں لگے ہوئے درخت کی شاخیں اگرچہ آپ کے گارڈن میں آرہی ہوں پھر بھی اس کے پھل پڑوسی کی ملکیت ہیں، آپ کے گھر میں پھل گرنے سے وہ پڑوسی کی ملکیت سے خارج نہیں ہوگا۔لہذاپڑوسی کی اجازت کے بغیر اس کا کھانا جائز نہیں،

البتہ اگر درخت کی شاخیں آپ کے لیے کسی قسم کی پریشانی کا باعث بن رہی ہیں تو آپ پڑوسی سے بات کر کے انہیں کٹوا سکتے ہیں۔

2.مسجد میں لگے ہوئے درختوں کے پھل کا حکم یہ ہے کہ اگر وہ بطور وقف یا عام لوگوں کے استعمال کے لیے لگائے گئے ہیں تو ان درختوں کے پھل کھانا جائز ہے چاہے گرے ہوئے اٹھا کر کھائیں یا توڑ کر۔

لیکن اگر وہ مسجد کی آمدنی کے لیے لگائے گئے ہوں یا لگانے والے کی نیت کا علم ہی نہ ہو تو مسجد میں ان کی قیمت ادا کیے بغیر ان کا کھانا جائز نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات:

1۔مجلة الأحكام العدلية :

” إذَا امْتَدَّتْ أَغْصَانُ شَجَرِ بُسْتَانِ أَحَدٍ إلَى دَارِ جَارِهِ أَوْ بُسْتَانِهِ فَلِلْجَارِ أَنْ يُكَلِّفَهُ تَفْرِيغَ هَوَائِهِ بِرَبْطِ الْأَغْصَانِ وَجَرِّهَا إلَى الْوَرَاءِ أَوْ قَطْعِهَا. وَلَكِنْ لَا تُقْطَعُ الشَّجَرَةُ بِدَاعِي أَنَّ ظِلَّهَا مُضِرٌّ بِمَزْرُوعَاتِ بُسْتَانِ الْجَارِ”.

(الْبَابُ الثَّالِثُ فِي بَيَانِ الْمَسَائِلِ الْمُتَعَلِّقَةِ بِالْحِيطَانِ وَالْجِيرَانِ، ١/ ٢٣١)

2۔الفتاوى الهندية (2/ 474):

“وإذا غرس شجراً في طريق العامة فالحكم أن الشجر للغارس، وإذا غرس شجراً على شط نهر العامة أو على شط حوض القرية فهو للغارس، كذا في الظهيرية. ولو قطعها فنبتت من عروقها أشجار فهي للغارس، كذا في فتح القدير”.

3۔ البحر الرائق شرح كنز الدقائق (5/ 221):

” ما غرس في المساجد من الأشجار المثمرة إن غرس للسبيل و هو الوقف على العامة كان لكل من دخل المسجد من المسلمين أن يأكل منها، و إن غرس للمسجد لايجوز صرفها إلا إلى مصالح المسجد، الأهم فالأهم كسائر الوقف، وكذا إن لم يعلم غرض الغارس. “.

4. الدر المختار وحاشية ابن عابدين (4/ 432):

“غرس في المسجد أشجارًا تثمر إن غرس للسبيل فلكل مسلم الأكل وإلا فتباع لمصالح المسجد.

5۔ فتاوی محمودیہ:(12/ 330)

“اس گرنے کی وجہ سے وہ پھل زید کی ملکیت سے خارج نہیں ہوا،بغیر مالک کی اجازت کے اس کا لینا اور کھانا درست نہیں”۔

6۔ صورتِ مسئولہ میں مسجد کے احاطہ میں لگے ہوئے پھل دار درخت اگر واقف یا درخت لگانے والے نے عا م لوگوں کے استعمال کے لیے لگائے ہیں تو لوگ ان درختوں کے پھلوں کو کھاسکتے ہیں، لیکن اگر یہ مسجد کی آمدنی کے لیے لگائے ہیں یا اس کی نیت معلوم نہیں ہے تو اس کو فروخت کرکے اس کی قیمت مسجد کے مصارف میں صرف کرنا ضروری ہے، مسجد میں اس کی قیمت ادا کیے بغیر اس کا استعمال جائز نہیں ہوگا۔

(فتاوی جامعہ بنوریہ اسلامیہ)

تاریخ: 9 صفر 1442ھ

17 ستمبر 2021

فقط۔ واللہ اعلم بالصواب

اپنا تبصرہ بھیجیں