پسند کی شادی اور اسلام

فتویٰ نمبر:667

سوال: السلام علیکم ورحمۃ اللہ

اسلام میں پسند کی شادی سے متعلق کیا احکامات ہیں؟ بنت اسحاق.

فیڈرل بی ایریا کراچی

الجواب حامدۃ و مصلیۃ و مسلمۃ

شادی زندگی کا اہم ترین معاملہ ہے،جس میں اسلام کا مزاج یہ ہے کہ اس معاملے کو والدین کی سرپرستی میں انجام دیا جائے اور ان کی مرضی کا خیال رکھا جائے ،کیونکہ ان کو زندگی بھر کا تجربہ ہوتا ہےاور اس تجربہ کے آئینے میں اولاد کے اچھے اور برے کو مدِنظر رکھ کر فیصلہ کرتے ہیں۔

اسلام ایک طرف اگر اولاد کو والدین کی خوشی کا خیال رکھنے کو کہتا ہے تو دوسری طرف والدین کو بھی اس بات کے لیے امادہ کرتا ہے کہ وہ بھی اپنی اولاد کی جائز ضرورت اورمعتبرخواہش کی حتی الامکان رعایت کریں،خاص طور پر رشتے کے معاملے میں اولاد جہاں رشتہ کرنا چاہ رہی ہے وہاں اگر والدین کی خاندانی عزت وشرافت اور دینی اقدار متاثر نہ ہو تو والدین کو اولاد کی خواہش کو ٹھکرانا نہیں چاہیے،بلکہ رشتہ کے معاملے کو باہمی صلاح و مشورے اور افہام و تفہیم سے حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ،بغیر کسی معقول وجہ کے ایک دوسرے کی بات کو رد نہ کریں اور نہ ہی لڑکے کی مرضی اور پسند کے خلاف اس کو مجبور کریں۔ایسے میں اولاد اپنے والدین کو نرمی اور خوش اسلوبی سے رضامند کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے ،اگر پھر بھی والدین اس کے لیے راضی نہ ہوں اور جہاں والدین رشتہ کرنا چاہتے ہوں اس کے بارے میں بالغ اولاد کو اگر ظنِ غالب ہو کہ وہاں اس کا نباہ نہ ہو سکے گا اور زندگی خوشگوار بسر نہ ہوسکے گی تو بالغ اولاد کو اپنے والدین کی بات نہ ماننے کی گنجائش ہے اور وہ اِس انکار کی وجہ سے گناہ گار بھی نہیں ہوں گی۔والدین اگر بغیر کسی معقول وجہ کے اس معاملے میں اولاد کی بات کو رد کرتے ہیں تو شرعاً ان کو اس کا حق حاصل نہیں۔ یہاں تک کے اگر بالغ لڑکے اور لڑکی کا نکاح ولی نے ان کی اجاز کے بغیر کر بھی دیا تو ان کی اجاز پر موقوف رہے گا۔وہ اس کو قائم رکھنا چاہے تو ٹھیک،ورنہ اس نکاح کو کالعدم قرار دیا جائے گا۔تاہم اس کے بعد بھی والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اوران کی خدمت باعثِ سعادت ہےاِ س میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کرنی چاہیے

البتہ اگر اولاد کسی غیر مناسب جگہ شادی کرنا چاہتی ہے تو والدین نہ صرف یہ کہ اس کو روکنے کے مجاز ہیں ،بلکہ بچے اگر اپنی مرضی سے کسی غیر کفو(غیر برابری) یا مہر مثلی سے کم میں شادی کر بھی دیتے ہیں تو شادی کے بعد بھی والدین کو اختیار ہے کہ وہ شادی تڑوا سکتے ہیں۔

تاہم ایک بات ضرور مدِ نظررکھنی چاہیے کہ اسلام میں شادی سے پہلے لڑکے اور لڑکی کا باہم پیار محبت کا تعلق قائم کرنا جائز نہیں، البتہ ایسے تعلق کے بعد اگر نکاح ہوجائے تو یہ نکاح جائز ہے۔ 

” فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ “

(سورۃ النساء:3)

“وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَى وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ”

(لقمان : 14)

“عن أبي سلمة، أن أبا هريرة، حدثهم: أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: لا تنكح الأيم حتى تستأمر، ولا تنكح البكر حتى تستأذن قالوا: يا رسول الله، وكيف إذنها؟ قال: أن تسكت”

(صحيح البخاري :7 / 17)

“ولا یجوز للولی اجبار البکرا لبالغہ علی النکاح”

(شرح البدایہ:2/294)

و ینعقد نکاح الحرۃ العاقلۃ البالغہ برضائہا والم یعقد علیھاولی بکرا کانت او ثیبا۔””

(شرح البدایہ:2/293،بہشتی زیور:حصہ 4،ص274)

(ولا تجبر البالغۃ البکر علی النکاح ولا الحر البالغ “

((رد المحتار على الدر المختار شرح تنوير الأبصار 2/289،بہشتی زیور:حصہ4،ص275 

“وتقدم انھا لو زوجت غیر کفوء فالمختار للفتاوی روایۃ انہ لا یصح العقد”

(شامی:2/531،بہشتی زیور:ص274)

“و لو نکحت بأقل من مھرھا فللولی العصبۃالاعتراض حتی یتم مھر مثلھا او یفرق القاضی بینھما”

(ردالمحتار:1/195،ھدایہ:2/531)

“(ومنها) رضا المرأة إذا كانت بالغة بكرا كانت أو ثيبا فلا يملك الولي إجبارها على النكاح عندنا، كذا في فتاوى قاضي خان”

(الفتاوى الهندية :1 / 269)

فقط واللہ تعالی اعلم بالصواب

بنت ممتاز عفی اللہ عنھا

صفہ اسلامک ریسرچ سینٹر،کراچی

30۔5۔1439ھ/16۔2۔2018ء

اپنا تبصرہ بھیجیں