پیٹرول پمپ کے مالک دولاکھ روپے  بطور مضاربت دیکر کاروبار کرنے کاحکم

محترم جناب مفتی صاحب

السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ

ایک شخص ایک پیٹرول  کے مالک کودولاکھ روپے  مضاربت  پر دینا چاہتا ہے، جس سے پیٹرول  پمپ کا مالک کچھ آلات خرید کر ٹائر پنکچربنانے کاکام کرے گا، اور جونفع حاصل ہوگا وہ دونوں فریق آپس میں متعین نسبت سے تقسیم کرلیں گے ،آیا کاروبار کےلیے مضاربت  کاطریقہ اختیار  کرناجائزہے ؟

الجواب حامداومصلیاً

صورت مسئولہ میں شرکت  یا مضاربت  تونہیں ہوسکتی ، للعبارۃ الاولی ۔ البتہ  اس معاملہ کے جوازکی چند  صورتیں ہوسکتی ہیں :

  • دولاکھ روپے سے جوآلات  خریدے جائیں وہ رقم فراہم  کرنے والے کی ملکیت  سمجھے جائیں ،اور  ٹائروں  میں پنکچر  لگانے  کا کام جوپیٹرول پمپ  کی ایک مخصوص جگہ پر انجام دیاجائے ، دونوں کا مشترک  کاروبار سمجھاجائے یعنی لوگوں کومعلوم ہوکہ یہ دونوں مشترک  طور پر اس کام کی  ذمہ داری قبول کرتے ہیں ، اور جوشخص پنکچر لگوانے کےلیے آئے، وہ اپنے کام کی تکمیل  کامطالبہ دونوں سے کرسکے  ، یعنی  اگر کسی گاہک  نے  پنکچر  بنوانے کےلیے ٹائر  دیا،ا ور پٹرول  پمپ والے  نے پنکچر نہیں بنایا توگاہک دوسرے شخص سے جوآلات کا مالک ہے ، جاکر مطالبہ  کرسکے کہ میرا پنکچر بنوا دو، اور آلات  کا مالک یہ ذمہ داری قبول  کرکے پنکچر  بنانے یا بنوانے کا ذمہ دار ہو۔ اس صورت میں یہ ضروری نہیں کہ آلات کا مالک ہر وقت اس جگہ موجود رہے ، نہ یہ ضروری ہے کہ وہ خود عملاً پنکچر  بنانے کا کام کرے، لیکن  صرف اتنی  بات ضروری  ہے کہ آلات کامالک کام کی ذمہ داری میں شریک سمجھا جاتا ہو، اور گاہکوں کویہ بات معلوم  ہو، اس صورت میں پنکچر  بنانے کی آمدنی  دونوں طے شدہ تناسب  سے تقسیم کرسکتے ہیں ۔
  • دوسری صورت یہ ہوکہ دولاکھ  روپے دینے والا آلات خرید  کر پیٹرول پمپ والے کوکرائے  پر دے دے  ، اور ان آلات  کےاستعمال کا ایک کرایہ مقرر کرکے لیتا رہے۔ اس صورت میں پنکچر بنانے کی جتنی اجرت  حاصل ہوگی وہ ساری کی ساری پیٹرول پمپ والے کی ہوگی ، البتہ وہ آلات  کے مالک کو طے شدہ  کرایہ ادا کرتا رہے گا۔ یہ صورت  شرکت یا مضاربت  کی نہیں ، بلکہ اجارہ  کی ہے ، اور اجارے کے لیے ایک مدت معین  کرنا ضروری ہے کہ یہ معاملہ اتنی مدت  تک جاری رہے گا، کرایہ داری کا معاہدہ  ختم ہونے پر آلات  کا مالک آلات واپس لے سکتا ہے۔
  • مذکورہ بالا دوصورتیں توبے غبار ہیں ، اوران کے جائز ہونے میں کوئی شبہ نہیں ، اس لیے انہی صورتوں کواختیار کرنے کی کوشش کرنی چاہیے لیکن اگر کسی وجہ سے ان صورتوں پرعمل ممکن  نہ ہوتوامام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کےمسلک میں سوال میں مذکورہ معاملہ بھی جائزہے ، یعنی رقم دینے والاپیٹرول پمپ کے مالک سے یہ کہے کہ ان دولاکھ  روپے سے تم پنکچر  لگانے کےآآلات  خریدو، اور پھر  پنکچر  لگانے کا کام کرو، جو اجرت حاصل ہوگی وہ ہم طے شدہ  نسبت  سے تقسیم کرلیں گے  ۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے مزارعت  پرقیاس کرکے اس صورت  کوبھی جائز قراردیا ہے۔ (کما فی العبارۃ الثالثه) اور بندہ  نے متعدد حنبلی علماء سے اس کی تصدیق کی ہے کہ یہ مسئلہ ان کے یہاں مفتی  بہ ہے ۔

ایک حنفی  مسلک کے شخص کوعام حالات میں  حنفی مسلک ہی کی پیروی کرنی چاہیے ،ا ور کسی دوسرے مسلک پرعمل نہیں کرنا چاہیے ، لیکن معاملات  میں ضرورت  کے وقت کسی ماہرحنفی  مفتی سے پوچھ  کراس کی ہدایت کے مطابق آئمہ  اربعہ میں سے کسی دوسرے امام کی مسلک پرعمل کرنے کی گنجائش ہے، اور حکیم الامت  حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی  قدس سرہ نے ابوحنیفہء عصر  حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی  قدس سرہ کی ہدایت پرمعاملات  میں اس پرعمل بھی فرمایا ہے ( کما فی العبارۃ الرابعة)آج کل چونکہ خدمات کا کاروبار  بہت وسعت  اختیار کرچکا ہے اس لیے  اس میں ابتلاء عام ہے ، اورحنابلہ کےمسلک  پرخدمات  کے کاروبار  میں شرکت  مذکورہ کی گنجائش معلوم ہوتی ہے وخاصة عند عدم النص  لعدم  الجواز ۔

مذکورہ بالا امور کے  دلائل مندرجہ ذیل ہیں:

العبارۃ الاولیٰ

ولوکان  لأحدھما أداۃ القصارین والعمل الآخر  فاشتر کاعلی ھذا، فالشرکة فاسدة ویجب  علی العامل أجر مثل الأداة،والربح  للعامل( الفتاوی التاترخانیة ص 669ج5)

ولودفع دابته الی رجل  لیؤاجرھا علی أن الأجر  بینھما کانت الشرکة فاسدۃ (عالمگیریة ص 334ج2)

العبارۃ الثانیة

اذا قعد الصانع معه  رجلا فی دکان یطرح علیه العمل  بالنصف فھو فاسد  فی القیاس ، الا انھا استحسن لکونه متعاملا بین الناس وفی نزع الناس عما تعاملوا به نوع حرج، فلدفع الحرج  یجوز،اذلیس فیه نص یبطله ( مبسوط  السرخسی ص 159ج 11)

ولوان۔۔۔الخ ( بدائع ص 64ج6)

لاعبرۃ بکثرۃ۔۔الخ ( ایضا ً ص 64/ج6)

قصاران لأحدھما۔۔الخ ( وفی البدائع : ویجوز شرط  التفاضل فی الکسب اذا شرط التفاضل فی الضمان۔۔سواء عمل الذی شرط له الفضل اولم یعمل لوجوہ ضمان العمل منه 1ھ 61۔62)

العبارۃ الثالثة

وان دفع  رجل دابته ۔۔۔الخ  ( المغنی  لابن قدامة ،کتاب الشرکة ص 116 تا118 دارالکتب  العمیه بیروت )

 العبارۃ الرابعة

حکیم الامت  حضرت مولانا اشرف علی تھانوی  قدس سرہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں :

کتب إلی بعض  الأصحاب من فتاوی ۔۔۔الخ  ( ج:4ص/85س 14)

پس حنفیہ کے قواعد  کے مطابق تویہ عقد ناجائز ہے کما نقل فی السوال عن العالمگیریة، لیکن  بناء برنقل  بعض اصحاب امام احمدکے نزدیک  اس میں جواز کی گنجائش ہے پس تحرزاحوط ہے ،ا ور جہاں ابتلا شدید ہوتو توسع کیاجاسکتاہے۔ ( امدادالفتاویٰ ص 343 ج 3 کتاب الاجارۃ سوال نمبر 249)

ھذا ماظھر  لی،والله سبحانه وتعالیٰ اعلم وعلمه اتم واحکم

محمد تقی عثمانی

25 رجب المرجب  1422ھ

الجواب صحیح

محمد رفیع عثمانی  عفااللہ عنه

عربی حوالہ جات وپی ڈی ایف فائل میں فتویٰ حاصل کرنےکےلیےلنک پرکلک کریں :

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/permalink/1039829759719602/

اپنا تبصرہ بھیجیں