پے آڈر کا حکم

 سوال: بے آڈر  چیک کی فروخت کرنا کیسا ہے ؟ اس  طور پر کہ زید کے ایک  لاکھ بینک میں تھے تو اس نے دس پے آرڈر دس دس ہزار کے بنوالیے  پھرعمر زید کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ مجھے ایک پے آڈر دو تاکہ میرا وقت اور آنے جانے کا خرچہ بچ جائے تو زید نے کہا ٹھیک ہے ، مگر  دس ہزار کا  پے آرڈر کی قیمت کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ  مجھے دو  یا تین سو روپے اضافی چارجز ادا کرنا  تو ا س نے کہا ٹھیک ہے مطلوب جوا ب یہ ہے کہ زید کے لیےا ضافی پیسوں کا لینا اور عمر کے لیے دینا کیسا ہے ؟

الجواب باسم ملہم الصواب

 پے آڈر کو فروخت کرنا جائز نہیں، نہ  بغیر نفع کے ، کیونکہ  اس میں قرض کو ایسے شخص پر فروخت کیاجارہاہے جس پر قرض لازم نہیں ۔ لہذا زید کے  لیے عمر سے اضافی پیسے لینا اورعمر کے لیے  دینا جائز نہیں، ایمرجنسی کی صورت میں اس  ضرورت  کو پورا کرنے کی صحیح صورت  یہ ہے کہ زید عمر سے  دس ہزار روپے قرض لے لے اور اسے پے آڈر دے کر کہہ دے کہ  بینک سے وصول کرلینا ، لیکن اس  صورت کے صحیح  ہونے کے لیے  شرط یہ ہے کہ زید اس پر کسی قسم کا کمیشن  عمر سے نہ لے  ، ورنہ سود کے زمرےمیں آئے گا۔

“البحر الرائق شرح  کنز الدقائق ” ( ج 15 ص 38 )

ولا ینعقد بیع الدین من  غیرمن علیہ الدین  ‘

” الدر المختار للحصفکی  ” ( ج 5 / ص  477)

” ( ھی ای الحوالۃ ) لغۃ : النقل ،  وشرعا: ( نقل الدین  من ذمۃ المحیل الی ذمۃ المحتال علیہ  ) وھل توجب البراءۃ من الدین المصحح؟  نعم ۔”

دارالافتاء جامعۃ الرشید

پی ڈی ایف فائل میں فتوٰی حاصل کرنے کے لیے لنک پرکلک کریں:

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/552754525093797/

اپنا تبصرہ بھیجیں