پیچھے کے راستے صحبت کا حکم

سوال:السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ!

ایک مسئلہ پوچھنا تھا کہ پیچھے کے راستے سے صحبت کرنا حرام ہے نا،پھر اگر شوہر زبردستی کرے تو بیوی کو گناہ ہوگا کرنے سے؟ دوسرا اس مسئلہ کی وجہ سی اگر بات بہت زیادہ بڑھ جانے کا خدشہ ہو،مطلب علیحدگی وغیرہ تک بات پہنچ جانے کا خطرہ ہو تو پھر بھی دھمکی دی جائے نہ؟

جواب: وعلیکم السلام ورحمہ اللہ وبرکاتہ!

اپنی بیوی کے ساتھ پیچھے کے راستے سے ہم بستری کرنا شرعاً ناجائز ہے۔ایسا شخص فاسق اور گناہ عظیم کا مرتکب ہے۔حدیث پاک میں ایسا فعل کرنے والے پر لعنت وارد ہوئی ہے۔شوہر پر لازم ہے کہ وہ اپنے اس فعل سے سچے دل سے توبہ و استغفار کرے۔

اگر شوہر زبردستی کرے تو بیوی شوہر کو اس برے فعل پر قدرت نہ دے اور بیوی کے سرپرست شوہر کو تنبیہ کریں کہ وہ اس عمل سے باز آئے۔اگر وہ باز نہیں آتا تو پھراسے طلاق یا خلع دینے پر مجبور کیا جائے۔

====================

دلائل:-

1۔”عن ابی ھریرة رضی اللہ عنه عن النبی صلی الله علیه وسلم: من اتی حائضاً،او امراة فی دبرھا،او کاھناًً،فقد کفر بما انزل علی محمد۔“

(ترمذی:کتاب الطہارة،باب ما جاء فی اتیان الحائض،النسخة الہندیة،٣٥/١،دارالسلام رقم:١٣٥)

ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے اپنی بیوی سے حیض کی حالت میں ہم بستری کی یا پیچھے کے راستے سے ہم بستری کی یا کسی کاہن کے پاس گیا تو تحقیق اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پ اتارے گئے قرآن کا انکار کیا۔“

2۔”عن ابی ھریرة رضی الله عنه قال:قال رسول الله صلی الله علیه وسلم:”ملعون من اتی امراته فی دبرھا“.

(سنن ابی داؤد:ت الارنؤوط،٤٩٠/٣)

ترجمہ:”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ملعون ہے وہ شخص جو اپنی عورت سے پیچھے کے راستے سے ہم بستری کرے“۔

3۔”عن ابی ھریرة قال:قال رسول الله صلی الله علیه وسلم: ان الذی یاتی امراته فی دبرھا لاینظر الله الیه“.

(مسند احمد:ت شاکر،٣٩٩/٨)

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی ایسے شخص کی طرف رحمت کی نظر سے نہیں دیکھتے ہیں جو کسی عورت کے ساتھ پیچھے کے راستے سے بدفعلی کرے۔“

4۔ اس صورت میں شوہر سخت گناہ گار اور فاسق ہوا،حدیث پاک میں ایسا فعل کرنے والے پر لعنت وارد ہوئی ہے،لیکن اس وجہ سے حاکم ان میں تفریق نہیں کراسکتا،البتہ شوہر کو تنبیہ کی جاوے کہ وہ اس سے توبہ کرے ورنہ اس کو مجبور کیا جاوے کہ وہ طلاق دے دے یا خلع کرے اور عورت کو بحالت مذکورہ شوہر کے پاس جانا نہ چاہیے،بلکہ یا شوہر توبہ کرے اور اس فعل سے باز آوے یا طلاق دے دے یا خلع کرے۔

(فتاوی دارالعلوم دیوبند:١٥٠/١٠)

فقط واللہ اعلم

11/اکتوبر2021ء

4ربیع الاول 1443ھ

اپنا تبصرہ بھیجیں