پھلوں کے ٹوکروں کا نقصان کمیشن ایجنٹ پر ڈالنا

فتویٰ نمبر:505

سوال:کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں :

زید کا فروٹ منڈی میں کمیشن کا کام ہے اس طور پر کہ مختلف بیوپاری اپنے باغ کا مال زید کی دکان پر اتارتے ہیں اور زید انکے مال کو بیچ کر دسواں حصہ کمیشن حاصل کرتا ہے ہر بیوپاری اپنے باغ کا مال اپنے ہی ٹوکروں میں لاتا ہے یعنی خالی ٹوکرے ان کی ملکیت ہوتے ہیں اور منڈی کا عام رواج ہے کہ ایک بیوپاری کے خالی ٹوکرے دوسرے بیوپاری کو اور دوسرے کے تیسرے بیوپاری کو دے دیئے جاتے ہیں تاکہ دوسرے دن کا مال آسکے ۔

اور اسطرح کرنے میں کسی بیوپاری کو اعتراض نہیں ہوتا کہ میرے ٹوکرے دوسرے کو کیو ں دیئے ۔

جب زید کے پاس مال بھیجاجاتا ہے تو کسٹمر حضرات اس ٹوکرے کو اپنے علاقے میں لے جاتے ہیں اور چونکہ سفر زیادہ ہوتا ہے جسکی وجہ سے راستے میں آنے جانے میں ٹوکرا ٹوٹ جاتا ہے پھر جب دوسرے دن کا مال لانے کے لئے وہ ٹوکرا کسی بیوپاری کو دیا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے ٹوکرے تو نئے تھے یہ ٹوٹے ہوئے ٹوکرے میں نہیں لیتا ،مجھے نئے ٹوکرے دیئے جائیں اگر اسکو نئے ٹوکرے نہ دیئے جائیں تو وہ اپنا مال زید کی دکان کے علاوہ اتاردیتا ہے اور اس طرح دوسرے کی کمیشن بن جاتی ہے اسلئے بحالت مجبوری زید اپنے پیسوں سے اسکو ٹوکرے خرید کر دیتا ہے تاکہ بیوپاری خوش ہوجائے اور اپنا مال اسی کی دکان پر اتارے جس کی وجہ سے زید کا نقصان ہوتا ہے جبکہ ٹوکروں کی ذمہ داری اپنے مال کے لانے کیلئے زید کی نہیں بلکہ بیوپاری ہی کی ہے کہ وہ اپنا مال اپنے ٹوکروں میں لائے ۔

جبکہ منڈی میں دوسرے حضرات جو کمیشن کا کام کرتے ہیں وہ بیوپاری کے پیسوں میں ہی پیسے نکال کر نئے ٹوکرے خرید کر دے دیتے ہیں اور بیوپاری کو اسکا علم نہیں ہوتا جس سے بیوپاری خوش ہوجاتا ہے اور لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے اس کے پیسوں سے اسی کو چیز دی ہے ۔

پوچھنا یہ ہے کہ آیا زید کے لئے دیگر حضرات کی طرح بغیر بیوپاری کی اجازت سے اسکے پیسوں میں سے ٹوکرے خرید کر دے سکتا ہے یا نہیں ۔

نوٹ:ماقبل جو مسئلہ ذکر کیا ہے اسمیں بیوپاری یہ کہہ کر میرا ٹوکرا نیا تھا ایک سال تک اپنے ٹوکرے استعمال کرلیتا ہے اور زید اسکو اپنے پیسوں سے خرید کر دیتا رہتا ہے مجبوراً

جبکہ اگر اس بیوپاری کے ٹوکرے صرف اسی کے استعمال میں رہیں تو دومہینے میں ٹوٹ جاتے ہیں لیکن چونکہ ایک کے ٹوکرے دوسرے کو دے دیئے جاتے ہیں منڈی کے نظام کے مطابق ۔تو ہر بیوپاری یہی کہتا ہے کہ یہ میرے ٹوکرے نہیں میرے تو نئے تھے لہذا اس کو اپنے پاس سے دینا پڑتا ہے اور اس طرح اسکی ایک سال کی چھٹی ہوجاتی ہے دوبارہ اس کو ٹوکرے لینے کی ضرورت نہیں پڑتی اور اس صورت میں زید کا نقصان ہوتا رہتا ہے ۔

الجواب حامداً ومصلیاً

سوال سے یہ بات واضح ہے کہ یہ خرید و فروخت ٹوکروں میں موجود پھلوں کی ہے ٹوکرے اس میں شامل نہیں ۔

            لہذا شرعی نقطہ نظر سے ہر شخص اپنے ٹوکروں کی واپسی کا مطالبہ کرسکتا ہے اور کمیشن ایجنٹ اس کا پابند ہے ۔

البتہ اگر تمام مالکان ٹوکروں کے تبادلہ اور اپنے ٹوکرے کے بدلہ دوسرے کے ٹوکرے لینے پر آمادہ ہوں جیسا کہ یہ متعارف ہے تو اس طرح کرنا بھی صحیح ہے ۔

            خریدار ٹوکرے لیجاتے وقت انکی حفاظت کے ذمہ دار ہیں لہذا اگر اس دوران ٹوکرے ٹوٹ جاتے ہیں یا کمزور ہوجاتےہیں تو وہ اس کے ضامن ہیں ۔

اگر کمیشن ایجنٹ انکو پھل فروخت کرتے وقت اپنے ٹوکرے لانے کا پابند کردے یا ان سے نقصان کی صورت میں ضمان ادا کرنے کا معاہدہ کرلے تو اس کی اجازت ہے ۔

بیوپاری کے علم میں  لائے بغیر اسکی رقم سے نئے ٹوکروں کے پیسے منہا کرلینا خیانت اور ناجائز ہے ۔

            ارشاد نبوی ﷺ ہے :

مشكاة المصابيح الناشر : المكتب الإسلامي – بيروت – (2 / 165)

لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه(مشکوٰۃ ،ص:۲۵۵)

نیز بیوپاری کے لئے اپنے پرانے ٹوکرے کے بدلے نئے ٹوکرے کا مطالبہ کرنا بھی شرعاً صحیح نہیں

التخريج

السنن الكبرى للبيهقي وفي ذيله الجوهر النقي – (6 / 100)

 أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال :« لا يحل مال امرئ مسلم إلا بطيب نفس منه ».

سنن الدارقطني – (3 / 26)

عن أنس بن مالك أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : لا يحل مال أمرئ مسلم إلا بطيب نفسه

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) – (4 / 61)

لَا يَجُوزُ لِأَحَدٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ أَخْذُ مَالِ أَحَدٍ بِغَيْرِ سَبَبٍ شَرْعِيٍّ.

اپنا تبصرہ بھیجیں