پوری زکوٰۃ ایک ہی فرد کو دینے کا حکم

سوال: اگر ہم پوری زکوٰۃ ایک ضرورت مند کو دے دیں تو کیا یہ درست ہے ؟ رقم اتنی ہے کہ وہ صاحب نصاب ہو جائے گا۔
الجواب باسم ملھم الصواب
واضح رہے کہ ایک ہی آدمی کو بلا ضرورت اس قدر زکوٰۃ دینا کہ وہ خود صاحب نصاب بن جائے، اور اس پر خود زکوٰۃ لازم ہو جائے فقہأ نے اس کو مکروہ کہا ہے، اس لئے بہتر یہ ہے کہ اتنی زیادہ رقم ایک ہی شخص کو نہ دی جائے بلکہ مختلف مستحقین میں تقسیم کرنی چاہئے، البتہ اگر کوئی مستحق ایسا ضرورت مند ہو کہ اس کی ضرورت نصاب سے ہی پوری ہوتی ہو تو ایسی صورت میں مکروہ نہیں ہو گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات۔
1:الدر المختار: (باب المصرف، 93/2)
(وکرہ اعطاء فقیر نصاباً)اوا کثر (الااذاکان) المدفوع الیہ (مدیوناً او)کان (صاحب عیال )بحیث(لو فرقہ۔ علیھم لا یخص کلا) او لا یفضل بعد دینہ (نصاب ) فلا یکرہ

2:الھندیۃ: (الباب السابع فی المصارف، 88/1، ط: زکریا)
ویکرہ أن یدفع إلی رجل مأتی درہم فصاعدًا وإن دفعہ جاز ہذا إذا لم یکن الفقیر مدیونًا فإن کان مدیونًا فدفع إلیہ مقدار ما لو قضی بہ دینہ لا یبقی لہ شئ أو یبقی دون المأتین لا بأس بہ، وکذا لو کان معیلا جاز أن یعطي لہ مقدار ما لو وزع عیالہ یصیب کل واحد منہم دون المأتین۔

و اللہ سبحانه وتعالى اعلم
تاريخ:2/3/23
9شعبان1444

اپنا تبصرہ بھیجیں