پوتے پوتیوں کے لئے وصیت کا حکم

سوال: کسی کے ماں باپ دونوں کا انتقال ہوگیا ہے اور اب بہن بھائیوں کی وراثت کا مسئلہ ہے۔ امی کے انتقال سے پہلے کبھی انہوں نے کہا تھا اپنے دو بچوں کے سامنے کہ میرا حصہ میرے چھوٹے بیٹے کی اولاد کو دیدو اور گھر بیچ دو۔ پر حصہ نہیں ہوسکا اور ان کا انتقال ہوگیا ۔ اب اگر گھر کا حصہ ہوگا تو پانچ بہن بھائیوں کے درمیان ہوگا یا پھر ماں کا حصہ نکال کر الگ کرنا ہوگا جب کہ کوئی ایک بہن یا بھائی بھی اسکی مخالفت کردے؟

تنقیح : کیا ان خاتون نے یہ کہا تھا کہ میرے مرنے کے بعد دے دینا ؟
جواب: نہیں، اسی وقت کے لئے کہا تھا۔

الجواب باسم ملهم الصواب

واضح رہے کہ انسان کا اپنی زندگی میں کسی کو کچھ دینا ہبہ (گفٹ) کہلاتا ہے  اورکسی چیز  کا  ہبہ  (گفٹ)  مکمل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہبہ (گفٹ) کرنے والا “موہوبہ”  چیز (یعنی جو چیز گفٹ کی جارہی ہے)  کو موہوب لہ (جس کو ہبہ کررہا ہے) کے مکمل  قبضہ اور تصرف میں دے دے( اور اگر وہ نابالغ ہوں تو ان کے ولی کو دے دے)، اور ہبہ کے وقت موہوبہ چیز سے اپنا تصرف مکمل طور پر ختم کردے، ورنہ مکمل قبضہ دیے بغیر محض زبانی یا تحریری  ہبہ (گفٹ) کرنا شرعاً کافی نہیں ہوتا اور وہ موہوبہ  چیز بدستور مالک کی ملکیت میں برقرار رہتی ہے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں چونکہ مذکورہ خاتون نے اپنی زندگی میں اپنے حصہ کے بارے میں صرف زبانی طور پر کہا تھا کہ یہ میرے پوتوں یا پوتیوں کا ہے اور ان کو اور ان میں سے جو نابالغ ہیں ان کے ولی کو مکمل قبضہ اور تصرف نہیں دیا تھا تو یہ پوتے/ پوتیاں اس کے مالک نہیں ہوں گے اور وہ حصہ ان خاتون کی ہی ملکیت میں ہی رہے گا  اور  ان کے انتقال کے بعد  ان کے شرعی ورثاء میں تقسیم ہوگا۔
البتہ اگر مرحوم کے بالغ ورثاء مرحومہ کے پوتے پوتیوں کو اپنی رضامندی سے کچھ دے دیں، تو یہ ان کی طرف سے تبرع واحسان اور ثواب کا باعث ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:

1۔’’لا يثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية‘‘۔
( فتاوی ھندیہ: الباب الثانی فیما یجوز من الھبۃ وما لا یجوز 378/ 4)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
2۔وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلاً لملك الواهب لا مشغولاً به) والأصل أن الموهوب إن مشغولاً بملك الواهب منع تمامها، وإن شاغلاً لا، فلو وهب جرابًا فيه طعام الواهب أو دارًا فيها متاعه، أو دابةً عليها سرجه وسلمها كذلك لاتصح، وبعكسه تصح في الطعام والمتاع والسرج فقط؛ لأنّ كلاًّ منها شاغل الملك لواهب لا مشغول به؛ لأن شغله بغير ملك واهبه لايمنع تمامها كرهن وصدقة؛ لأن القبض شرط تمامها وتمامه في العمادية”.
( الدرالمختار: کتاب الھبة 690/ 5)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
3۔ولا يتم حكم الهبة إلا مقبوضة ويستوي فيه الأجنبي والولد إذا كان بالغا۔
(الفتاوی الهندية، ج4،ص377)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
4۔ ”ولو قال الرجل: جميع مالي، أو جميع ما أملكه لفلان فهذا إقرار بالهبة ‌لا ‌يجوز ‌إلا ‌مقبوضة، وإن امتنع من التسليم لم يجبر عليه۔“
(الجوہر النیرہ ،شرح مختصر القدوري ،كتاب الإقرار، 248/1 )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
6۔ (وشرائط صحتها (في الموهوب أن يكون مقبوضا غير مشاع مميزا غير مشغول)۔۔۔ وفي الأشباه: هبة المشغول لا تجوز،“
(الدر المختار مع رد المحتار:  كتاب الهبة، 5/ 688، 691
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

والله تعالى أعلم بالصواب
18 جمادی الثانی 1445ھ
1جنوری 2024ء

اپنا تبصرہ بھیجیں