پروویڈنٹ فنڈ کی حیثیت

فتویٰ نمبر:524

ایک شخص ایک تعلیمی ادارے سے گزشتہ کئی سال سے وابستہ ہے لیکن اب وہ نوکری چھوڑنے لگا ہے تو جو رقم پروویڈنٹ فنڈ وغیرہ کی اس کو ملے گی کی وہ لینا جائز ہے؟ ہر مہینے کچھ رقم اس کی تنخواہ سے اور کچھ ادارے کی طرف سے ڈالی جاتی ہے جو کہ بینک وغیرہ میں رکھی جاتی ہے کہ کاروبار وغیرہ میں لگا کر بڑھائی جائے.

 الجواب حامدا ومصلیا


اس مسئلہ کے جواب میں کچھ تفصیل ہے وہ یہ کہ پراویڈنٹ فنڈ میں ملازم کی تنخواہ سے جورقم کاٹی جاتی ہے اس کی دو صورتیں ہیں:
(الف) کہیں یہ رقم جبری کاٹی جاتی ہے،یعنی اس میں ملازم کے اختیار کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا،غیراختیاری طور پرمحکمہ یہ رقم کاٹ لیتا ہے۔

(ب) اور کہیں اختیاری طور پر ملازم کی تنخواہ سے ایک مخصوص متعین حصہ محکمہ کاٹتا ہے،ہر صورت کا حکم الگ الگ ہے،اور وہ یہ کہ جبری طور پر جو رقم کاٹی جاتی ہےاور جو رقم محکمہ خود اپنی طرف سے دیتا ہے،یہ دو قسم کی رقمیں تو بلاشبہ ملازم کے لئے حلال ہے،اسی طرح محکمہ اگر ان دونوں رقموں سے حلال اور جائز کروبار کرکے اس کا نفع ملازم کو دیتا ہے تووہ بھی حلال ہے،لیکن اگر کمپنی یا محکمہ ان دونوں رقموں سےکوئی حرام اور ناجائز کاروبار کرکے اس کا نفع ملازم کو دیتا ہےتو اس کی پھر دو صورتیں ہیں:

ایک صورت تو یہ ہے کہ محکمہ یہ نفع(جوحرام ہے)بینک وغیرہ سےخود وصول کرے اور اپنی مرکزی اکاونٹ میں جمع کرے جبکہ مرکزی اکاونٹ کا اکثروبیشتر سرمایہ حلال ہواور وہاں سے ملازم کواپنے وقت پراصل پراویڈنٹ فنڈیا جی پی فنڈ کے ساتھ یہ نفع بھی ملے،تو ملازم کے حق میں یہ نفع حرام نہیں ہےاور اس کو یہ نفع وصول کرنا جائز ہے۔

دوسری صورت یہ کہ محکمہ یہ حرام نفع خود وصول نہ کرے بلکہ ملازم خود جاکربینک یا انشورنس کمپنی سے وصول کرے ایسی صورت میں ملازم کو یہ حرام نفع وصول کرنا اور اپنے استعمال میں لانا حلال نہیں ،لہذا ملازم یہ نفع خود وصول نہ کرے،اور غلطی یا لاعلمی سےوصول کرلےتو مالِ حرام سے بچنے کی نیت سےکسی غریب محتاج آدمی کو دیدے اور آئندہ بالکل وصول نہ کرے اوراپنی کمپنی یا محکمہ کے لئے بھی ہر حال میں فنڈ کی رقم کسی حرام کروبار کرنے والے ادارے لگانا اور حرام منافع حاصل کرنا جائز نہیں اور اختیاری طور پر پراویڈنٹ فنڈ میں جو رقم کٹوائی جائے وہ رقم اور اس پر جو رقم محکمہ اپنی طرف سے ملاتا ہے وہ توجائز ہے اس کے لینے میں کوئی شبہہ نہیں ،البتہ سود کے نام سےجو رقم دی جاتی ہےاس سے اجتناب کیا جائے،کیونکہ علماء کی تحقیق کے مطابق یہ بعینہٖ سود اگر چہ نہیں ہے،تاہم سود کے ساتھ اس کی مشابہت ضرور موجود ہے اور یہ سود خوری کا ذریعہ بن سکتا ہے،اس لیےیہ رقم وصول ہی نہ کرے یا وصول کرنے کے بعدصدقہ کردے

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم (ماخذہ تبویب۵۵؍۱۳۳)
واللہ تعالی اعلم بالصواب
محمد عاصم عصمہ اللہ تعالی
 
 
 

اپنا تبصرہ بھیجیں