قبر میں عہد نامہ رکھنے کا حکم

سوال: کیا قبر میں عہد نامہ رکھنا جائز ہے ؟

جواب: قبر میں عہد نامہ رکھنا چند وجوہات کی بنا پر جائز نہیں:

1. خیر القرون سے اس کا ثبوت نہیں، اس لیے اسے دین کا حصہ سمجھ کر کرنے سے بدعت کا ارتکاب لازم آئے گا۔

2. “عہد نامہ” قرآنی آیات اور مقدس کلمات پر مشتمل ہے، مردے کے ساتھ رکھنے کی صورت میں میت کی نجاست لگنے کا قوی امکان ہے۔ ظاہر ہے یہ قرآنی آیات اور مقدس کلمات کی بے ادبی ہے.

3. جب مسجد کے محراب اور دیواروں پر مقدس کلمات لکھنا مکروہ ہے تو مردے کے ساتھ مٹی میں رکھنا مکروہ کیوں نہ ہوگا؟

البتہ چونکہ “عہد نامہ” کا مضمون درست ہے؛ اس لیے اگر مردے کو کفنانے کے بعد بغیر روشنائی کے صرف انگلی سے عہد نامہ لکھ دیا جائے تو اس کی گنجائش ہے۔

====================

حوالہ جات:

1… قال اللہ تعالیٰ: لا يَمَسُّهُ إِلَّا المُطَهَّر‌ونَ

(سورۂ واقعہ، آیت: 79)

ترجمہ: جسے صرف پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں۔

2… وَ مَنۡ یُّعَظِّمۡ شَعَآئِرَ اللّٰہِ فَاِنَّہَا مِنۡ تَقۡوَی الۡقُلُوۡبِ۔ ( سورۂ حج، آیت: 32)

ترجمہ: اور جو شخص اللہ کے شعائر کی تعظیم کرے، تو یہ بات دلوں کے تقوی سے حاصل ہوتی ہے۔

(آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم)

3… لا تَمَسَّ الْقُرْآنَ إِلَّا وَأَنْتَ طَاهِرٌ۔

(المستدرک علی الصحیحین للحاکم:(485/3)

’’قرآن مجید کو صرف طہارت ہی کی حالت میں ہاتھ لگاؤ۔‘‘

4… قال العلامۃ الشامی :

وَقَدْ أَفْتَى ابْنُ الصَّلَاحِ بِأَنَّهُ لَا يَجُوزُ أَنْ يُكْتَبَ عَلَى الْكَفَنِ يس وَالْكَهْفُ وَنَحْوُهُمَا خَوْفًا مِنْ صَدِيدِ الْمَيِّتِ وَالْقِيَاسُ الْمَذْكُورُ مَمْنُوعٌ لِأَنَّ الْقَصْدَ ثَمَّ التَّمْيِيزُ وَهُنَا التَّبَرُّكُ، فَالْأَسْمَاءُ الْمُعَظَّمَةُ بَاقِيَةٌ عَلَى حَالِهَا فَلَا يَجُوزُ تَعْرِيضُهَا لِلنَّجَاسَةِ، وَالْقَوْلُ بِأَنَّهُ يُطْلَبُ فِعْلُهُ مَرْدُودٌ لِأَنَّ مِثْلَ ذَلِكَ لَا يُحْتَجُّ بِهِ إلَّا إذَا صَحَّ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – طَلَبُ ذَلِكَ وَلَيْسَ كَذَلِك۔

5… وفیہ ایضاً:

اﻟﺪﺭاﻫﻢ ﻭاﻟﻤﺤﺎﺭﻳﺐ ﻭاﻟﺠﺪﺭاﻥ ﻭﻣﺎ ﻳﻔﺮﺵ، ﻭﻣﺎ ﺫاﻙ ﺇﻻ ﻻﺣﺘﺮاﻣﻪ، ﻭﺧﺸﻴﺔ ﻭﻃﺌﻪ ﻭﻧﺤﻮﻩ ﻣﻤﺎ ﻓﻴﻪ ﺇﻫﺎﻧﺔ ﻓﺎﻟﻤﻨﻊ ﻫﻨﺎ ﺑﺎﻷﻭﻟﻰ ﻣﺎ ﻟﻢ ﻳﺜﺒﺖ ﻋﻦ اﻟﻤﺠﺘﻬﺪ ﺃﻭ ﻳﻨﻘﻞ ﻓﻴﻪ ﺣﺪﻳﺚ ﺛﺎﺑﺖ ﻓﺘﺄﻣﻞ.

(ج2 ص246-247 دارالفکر، بیروت)

5… “عہد نامہ” کا مضمون درست ہے ،لیکن اس کے فضائل کا ثبوت نہیں،عہدنامہ کے فضائل میں جو باتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب کی گئی ہیں وہ من گھڑت ہیں ،ان فضائل کو صحیح سمجھنا اور عہد نامہ کوان فضائل کی نیت سے پڑھنا درست نہیں ہے۔البتہ مطلق دعا کی نیت سے پڑھنے میں حرج نہیں۔

( فتاوی بینات: 2/1789 مکتبہ بینات)

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

اپنا تبصرہ بھیجیں