قبر پر پانی ڈالنے کی شرعی حیثیت

تدفین کے موقع پر قبر کے اوپر پانی ڈالنے کی شریعت میں کیا حیثیت ہے؟ اور کس وجہ پانی ڈالا جاتا ہے؟

الجواب حامدۃ ومصلیۃ:

دفن کے بعد پانی ڈالنا جائز ہے

 اس سلسلے میں متعدد احادیث ملتی ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن معاذ رضی اللہ کی قبر پر پانی ڈالا، اپنے بیٹے ابراہیم کی قبر پر بھی پانی چھڑکا۔ اسی طرح عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہما کی قبر پر پانی چھڑکنے کا حکم دیا۔ بلال بن رباح نے نبی ﷺ کی قبر پہ پانی چھڑکا تھا۔

قبر پر پانی ڈالنے کی چند وجوہات ہیں:

دھول مٹی بیٹھ جائے۔

ہوا کے جھونکوں سے حفاظت رہے.

مٹی دھنس جائے اور قبر کی اہانت کا اندیشہ ہو۔

لیکن اگر یہ عقیدہ ہے کہ قبر پر پانی چھڑکنے سے میت کو فائدہ پہنچتا ہے یا اس کو ٹھنڈک ملتی ہے۔ اس نظریہ کے تحت پانی ڈالا جائے یہ سراسر باطل عقیدہ ہے اس عقیدہ سے مسلمان توبہ کرے ۔اس عقیدہ کی وجہ سے پانی ڈالنا ممنوع ہے

عن جعفر ابن محمد عن أبیہ مرسلاً أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم حثی علی المیت ثلاث حثیات بیدیہ جمیعاً وأنہ رش علی قبر ابنہ إبراہیم ووضع علیہ حصباء۔ (أخرجہ البغوي في شرح السنۃ ۔رقم: ۱۵۱۵)

وفي حدیث اٰخر: وعنہ قال رش قبر النبي ا وکان الذي رش الماء علی قبرہ بلال بن رباح بقربۃ بدأ من قبل رأسہ حتی انتہیٰ إلیٰ رجلیہ۔ (رواہ البیہقي في دلائل النبوۃ، مشکوٰۃ المصابیح 148-149، مرقاۃ المفاتیح 4-147 رقم:1710) 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

زوجہ محمد بلال

دارالافتاء صفہ آنلائن

4/2/2017

اپنا تبصرہ بھیجیں