قادیانیوں کوسرکاری عہدے دینا

بسم الله الرحمن الرحیم

الاستفتاء:

محترم و مکرم مفتی صاحب!

 ایک شخص جو کہ شریعت مطہرہ اور آئین پاکستان دونوں کی رو سے غیر مسلم ہے مگر اپنے آپ کو مسلم ظاہر کرتا ہے، مزید برآں ایسی مراعات اور عہدے جو مسلمانوں کے ساتھ خاص ہیں وہ حاصل کرتاہے۔

اس شخص کا کیا حکم ہے؟ نیز شرع اسلامی میں اس کی کیا سزا ہے ؟ تاریخ اسلامی کے علمی ذخیرے میں اس کی کوئی نظیر مل سکے تو بھی نشان دہی فرمادیں۔ جزاکم اللہ خیرا

 مستفتی: رضوان نفیس (لاہور)

بسم الله الرحمن الرحيم

الجواب حامد أو مصليا ومسلما

 ایسا شخص جو کفریہ عقائد رکھتا ہو لیکن اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کر تا ہو یا اپنے کفریہ عقائد کو باطل تاویلات سے اسلام باور کراتاہو، شریعت میں اسے زندیق کہتے ہیں، زندقہ کفرکا انتہائی درجہ ہے، جیسے ہمارے ہاں قادیانی، اسماعیلی اور غالی روافض۔ كما صرح به الشيخ محمد موسى الروحاني البازی رحمہ الله في رسالته التحقيق في الزنديق كما سيأتي مفصلا إن شاء الله تعالى –

شر عازندیق مرتد کی طرح واجب القتل ہے، البتہ اتنا فرق ہے کہ مرتد کی توبہ قبول کی جائے گی جبکہ زندیق کی توبہ بعض اہل علم کے نزدیک قبول کی جاتی ہے اور بعض کے نزدیک قبول نہیں کی جاتی۔ حنفیہ کاراجح اور مفتی به مذ ہب یہ ہے کہ ایسا زندیق جو دوسروں کو بھی زندقہ اور بے دینی کی طرف دعوت دیتا ہو قضاء اس کی توبہ قبول نہ ہو گی یعنی اگر توبہ سے پہلے گرفتار ہو جائے تو اسے قتل کر دیا جائے گا اور توبہ قبول نہ ہو گی اور اگر گر فتار ہونے سے پہلے خود توبہ کرلے تو اس کی توبہ قبول ہو گی اور سزا معاف ہو جائے گی اور اگر زندقہ و الحاد کی طرف دعوت دینے والا نہ ہو تو اس کی توبہ قبول کی جائے گی جیسا کہ علامہ شامی اور قاضی خان وغیرہ نے اس کی وضاحت کی ہے، تاریخ اسلامی میں اس کی بڑی مثال مسیلمہ کذاب اور اس کے متبعین ہیں۔

اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ زنادقہ پر ان کی شرعی  سزا قتل  جاری کرے، لیکن عام شخص کو قانون ہاتھ میں لے کر انہیں قتل کرنے کی اجازت نہیں، نیز ایسے لوگوں کو مسلمان ملک میں سرکاری مراعات اور عہدےدینا شرعا نا جائز اور مسلمانوں کے دین و دنیا کے لیے انتہائی مضر اور نقصان دہ ہے۔

تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں شیخ مشايخنا المحدث المفسر الفيلسوف العلام محمد موسی خان الروحاني البازی نور اللہ مرقدہ کا مقالہ عظیمہ “التحقيق في الزنديق” جس کی تلخیص حضرت نے خود مقدمة شرح البيضاوی (ج۲) میں فرمائی ہے۔ مختصرا کچھ دلائل مع ترجمہ ضروری عبارات پیش خدمت ہیں۔

قال اللہ تبارک وتعالی (فصلت:۴۰)

إن الذين يلحدون في آياتنا لا یخفون  علينا أفمن يلقى في النار خير أم من يأتي آمنا يوم القيامة اعملوا ما شئتم انہ بما  تعملون بصير – ترجمہ: بیشک جو لوگ ہماری آیتوں میں کج روی کرتے ہیں وہ ہم سے مخفی نہیں ہیں سوجھلا جو شخص دوزخ میں ڈالا جائے  وہ بہتر ہے یا وہ شخص جو قیامت کے دن امن وامان کے ساتھ آئے، جو جی چاہے کر لو وہ تمہارا کیا ہو اسب کچھ دیکھ رہا ہے۔

 في مسند أحمد ( ۱۰ / ۱۰۸ ، رقم الحدیث  ٥٨٦٧)

عن ابن عمر قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : ” سيكون في هذه الأمة مسخ ، ألا وذاك في المكذبين بالقدر والزنديقية

ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ عنقریب اس امت میں مسخ  ہو گا، یاد رکھو یہ تقدیر کا انکار کرنے والوں اور زنادقہ میں ہو گا۔

 وفيه أيضا ( ۴ / ۳۳۶، رقم الحدیث ۲۵۵۲)

 عن عكرمة أن عليا رضي الله عنه، أتي بقوم من هؤلاء الزنادقة ومعهم كتب، فأمر بنار فأججت، ثم أحرقهم وكتبهم، – قال عكرمة: – فبلغ ذلک ابن عباس فقال: لو كنت أنا لم أحرقهم لنہی رسول الله صلى الله علیہ وسلم، ولقتلتهم لقول رسول الله صلى الله علیہ وسلم: ” من بدل دينه فاقتلوه ” وقال رسول الله صلى الله علیہ وسلم: ” لا تعذبوا بعذاب الله عز وجل”

 ترجمہ: حضرت عکرمہ سے منقول ہے کہ حضرت علی رضی الله عنہ زنادقہ کی ایک جماعت پر تشریف لائے جبکہ ان کی کتب بھی ان کے ساتھ تھیں اور آگ جلانے کا حکم فرمایا تو آگ بھڑکائی گئی، اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کو اور ان کی کتب کو جلاڈالا، حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ یہ بات حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو  پہنچی تو انہوں نے فرمایا کہ اگر میں ہوتا تو  سول الله صلى الله علیہ وسلم نے منع فرمانے کی وجہ سے انہیں آگ میں نہ جلاتالیکن ان کو قتل کر دیتا کیونکہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جو اپنا دین بدل لے اسے قتل کر دو اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ الله تعالی کے عذاب سے عذاب نہ دو۔

 نوٹ: شیخ المحد ثین مولانا محمد ادریس  کاندہلوی رحمہ اللہ اس حدیث کی تشر یح کرتے ہوئے بحو الہ فتح الباری رقم طراز ہیں:ممکن ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا یہ مذہب ہو کہ امام کو اختیار ہے کہ کسی مرتد کو تغلیظ اور تشدید کے لیے آگ میں جلادے …(نیز) قتل کر کے آگ میں ڈالنا بالاتفاق جائز ہے کلام احراق حی میں ہے، بظاہر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قتل کے بعد جلایا مسئلہ تعذیب حیوان بالنار کے لیے شرح سیر کبیر ج ۲، ص ۲۷۴ کی طرف مراجعت کی جائے۔ (احسن البیان فی تحقیق مسئلة الكفر والایمان مع مجموعه رسائل رد قادیانیت ، ص ۴۴۵، ۴۴۶(

وفي المعجم الصغير للطبرانی ( ۲/۱۸۶، رقم الحدیث ۵۹۴۴، مكتبة ابن تيمية، قاهره)

 عن سهل بن سعد الساعدي، عن النبي صلى الله علیہ وسلم قال: ما كانت زندقة، إلا كان بين يديه التكذيب بالقدر –

وفي رد المحتار (کتاب الجهاد، فصل في الجزية مطلب الزنديق إذا أخذ قبل التوبة يقتل ولاتؤخذ منه الجزية ۴ / ۱۹۹، دارالفکر، بیروت)

( تنبیہ )قال في الفتح قالوا لو جاء زنديق قبل أن يؤخذ فأخبر بأنہ زندیق وتاب تقبل توبته، فإن أخذ ثم تاب لا تقبل توبتہ ويقتل لأنهم باطنية يعتقدون في الباطن خلاف ذلك فيقتل ولا تؤخذ منه الجزية. ا. وسيأتي في باب المرتد أن ھذا التفصيل ہو المفتی بہ۔

 ترجمہ: حافظ ابن ہمام نے فتح القدیر میں فرمایا ہے کہ اگر کوئی زندیق گر فتار ہو نے سے پہلے آ کر یہ بتادے کہ وہ زندیق تھا اور اس نے توبہ کر لی ہے تو اس کی توبہ قبول ہوگی لیکن اگر گر فتار ہو گیا اور پھر توبہ کی تو توبہ قبول نہ ہوگی اور اسے قتل کر دیا جائے گا، اس لیے کہ یہ باطنیہ ہیں، باطن میں ظاہر کے خلاف عقیدہ رکھتے ہیں لہذا اسے قتل کر دیا جائے گا اور جز یہ نہیں لیا جائے گا۔

وفيه أيضا (کتاب الجهاد، باب المرتد، ۴/ ۲۴۱)

مطلب في الفرق بين الزنديق والمنافق والدہری والملحد (قولہ وكذا الكافر بسبب الزنديق) قال العلامة ابن كمال باشا في رسالته: الزنديق في لسان العرب يطلق على من ينفي الباری تعالى، وعلى من يثبت الشريک، وعلى من ينكر حكمته. والفرق بينه وبين المرتد العموم الوجي لأنه قد لا يكون مرتدا، كما لو كان زنديقا أصليا غير منتقل عن دين الإسلام، والمرتد قد لا يكون زنديقا كما لو تنصر أو تہود، وقد يكون مسلما فيتزندق. وأما في اصطلاح الشرع، فالفرق أظهر لاعتبارہم فیہ إبطان الكفر والاعتراف بنبوة نبينا صلى الله عليه وسلم – على ما في شرح المقاصد، ………….. ثم بين حكم الزنديق فقال : اعلم أنه لا يخلو إما أن يكون معروفا داعيا إلى الضلال أو لا. والثاني ما ذكره صاحب الهداية في التجنيس من أنه على ثلاثة أوجه: إما أن يكون زنديقا من الأصل على الشرك، أو يكون مسلما فيتزندق، أو يكون ذميا فیتزندق، فالأول يترك على شرکہ إن كان من العجم، أي بخلاف مشرک العرب فإنه لا يترك. والثاني يقتل إن لم يسلم لأنه مرتد. وفي الثالث يترك على حاله لأن الكفرملة واحدة اه والأول أي المعروف الداعي لا يخلو من أن يثوب بالاختيار ويرجع عما فيه قبل أن يؤخذ أولا، والثاني يقتل دون الأول۔

وفي فتح القدیر (کتاب الجهاد، باب الجزية، ۲/ ۵۰ ، دار الفکر، بیروت)

وأما الزنادقة قالوا: لو جاء زندیق قبل أن يؤخذ فأخبر أنہ زندیق وتاب تقبل توبتہ، فإن أخذ ثم تاب لا تقبل توبته ويقتل؛ لأنهم باطنية يعتقدون في الباطن خلاف ذلك فيقتل ولا تؤخذ منه الجزية.

وفي الدر المختار مع رد المحتار (کتاب الجهاد، باب المرتد، ۴/ ۲۴۲)

(و) كذا الكافر بسبب (الزندقة) لا توبة له، وجعله في الفتح ظاہر المذهب، لكن في حظر الحانية الفتوى على أنه (إذا أخذ ) الساحر أو الزنديق المعروف الداعي (قبل توبتہ ) ثم تاب لم تقبل توبته ويقتل، ولو أخذ بعدا قبلت.

ترجمہ: اور یہی حکم زندقہ کے سبب کافر ہو جانے والے کا کہ اس کی توبہ قبول نہیں ہو گی، فتح القدیر میں اس کو ظاہر مذہب قرار دیا ہے لیکن خانیہ کے باب الحظر میں ہے کہ فتوی اس پر ہے کہ جادو گریاز ندیق جو معروف اور داعی ہو اگر توبہ سے پہلے گرفتار کر لیا جائے اور پھر وہ توبہ کرے تو اس کی توبہ قبول نہ ہو گی اور اسے قتل کر دیا جائے گا اور اگر توبہ کے بعد گرفتار ہو تو اس کی توبہ قبول ہو گی۔

وقال العلامة الشامي تحت عبارة الدرهذه:

(قولہ المعروف) أي بالزندقة الداعي أي الذي يدعو الناس إلى زندقته. اہ ح. فإن قلت: كيف يكون معروفا داعيا إلى الضلال، وقد اعتبر في مفہومہ الشرعي أن يبطن الكفر. قلت: لا بعد فيه، فإن الزنديق يموه كفره ويروج عقیدتہ الفاسدة ويخرجها في الصورة الصحيحة، وهذا معنى إبطان الكفر، فلا ينافي إظهاره الدعوى إلى الضلال وكونه معروفا بالإضلال

اہ.

صاحب در مختار کے قول معروف کا مطلب یہ ہے کہ زندقہ سے معروف ہو اور داعی ہو یعنی اس زندقہ اور بے دینی کی طرف لوگوں کو دعوت دیتا ہو، اگر آپ یہ فرمائیں کہ وہ معروف کیسے ہو گا کہ وہ ضلالت و گمراہی کی طرف داعی ہے حالانکہ زندیق کے شرعی مفہوم اس بات کے اعتبار فرمایا ہے کہ زندیق اپنے کفر کو چھپاتا ہے( تو پھر معروف کیسے ہو گا ؟) تو جواب میں ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ کوئی بھی بات نہیں ہے کیونکہ زندیق اپنے کفر پر اسلام کا لیبل لگاتا ہے اور اپنے غلط عقیدہ کی ترو یج کرتا اور اسے صحیح  صورت میں پیش کرتا ہے، کفر چھپانے کا یہی مطلب ہے لہذا اس کا اسلام کا اظہار داعی الی الضلال ہونے اور ضال و فضل سے معروف ہونے کے منافی نہیں ہے۔

 وفي مجمع الأنهر شرح ملتقى الأبحر (کتاب الجهاد، فصل في بيان أحكام الجزية، ١/٦٧١ ، دار إحياء التراث العربی، بیروت)

 فلا توضع أيضا على زنديق لأنه يعتقد في الباطن خلاف الظاہر بل إن جاء قبل أن يؤخذ وأقر أنہ زندیق وتاب تقبل توبته وإن بعد الأخذ يقتل ولا تقبل توبتہ ولذا قال الإمام اقتلوا الزنديق وإن قال تبت وأمواله وذريته فيء لأبل الإسلام

 ترجمہ: زندیق پر بھی جزیہ مقرر نہیں کیا جائے کیونکہ وہ دل میں ظاہر کے خلاف اعتقاد رکھتا ہے بلکہ اگر وہ پکڑے جانے سے پہلے آجائے اور اقرار کر لے کہ وہ زندیق تھا اور اس نے توبہ کر لی تو اس کی توبہ قبول ہو گی اور اگر گر فتار ہونے کے بعد کی تو قتل کر دیا جائے گا اور توبہ قبول نہ ہوگی، اسی وجہ سے امام صاحب رحمہ اللہ  نے یہ فرمایا کہ زندیق کو قتل کر دو اگرچہ وہ کہہ دے کہ میں نے توبہ کر لی ہے اور اس کا مال اور اولاد مسلمانوں کے لیے مال فےہے۔

في البحر الرائق (كتاب السير، ۵/ ۱۳۲)

 لا تقبل توبة الزنديق في ظاہر المذہب وہو من لا يتدين بدين وأما من يبطن الكفر والعياذ بالله تعالى ويظهر الإسلام فهو المنافق ويجب أن يكون حكمه في عدم قبولنا توبتہ کالزنديق لأن ذلك في الزنديق لعدم الاطمئنان إلى ما يظهر من التوبة إذا كان قد يخفی كفره الذي هو عدم اعتقاده دينا والمنافق مثله في الإخفاء وعلى هذا فطريق العلم بحالہ إما بأن يعثر بعض الناس عليه أو يسره إلى من أمن إليه والحق أن الذي يقتل ولا تقبل توبتہ ہو المنافق فالزنديق إن كان حكمہ ذلک فيجب أن يكون مبطنا كفره الذي هو عدم التدين بدين ويظهر تدينه بالإسلام أو غيره إلى أن ظفرنا بہ وہو عربي والا لو فرضناه مظهرا لذلك حتى تاب يجب أن لا يقتل وتقبل توبتہ کسائر الكفار المظهرين لكفرهم إذا أظهروا التوبة وكذا من علم أنه ينكر في الباطن بعض الضروريات كحرمة الخمر ويظهر اعتقاد حرمته كذا في فتح القدير وفي الخانية قالوا إن جاء الزنديق قبل أن يؤخذ فأقر أنه زنديق فتاب عن ذلک تقبل توبتہ إن أخذ ثم تاب لم تقبل توبته ويقتل اہ

 وفي فتاوی قاضی خان (کتاب الحظروالاباحة، ۳/ ٢٤٦)

 و قال الفقيہ أبو اللیث رحمہ الله تعالى إذا تاب الساحر قبل أن يؤخذ تقبل توبتہ و لا يقتل و إن أخذ ثم تاب لم تقبل توبته و يقتل وكذا الزنديق المعروف الباعي و الفتوى على هذا القول –

ترجمہ: فقیہ ابو اللیث رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جب ساحر گرفتاری سے پہلے توبہ کر لے تو اس کی توبہ قبول ہو گی اور اسے قتل نہیں کیا جائے گا اور اگر پکڑا گیا اور پھر توبہ کی تو توبہ قبول نہ ہو گی اور اسے قتل کر دیا جائے گا، اور ایسے ایسی معروف داعی زندیق اور فتوی اسی قول پر ہے۔

 وفيه أيضا ( ۳/ ۳۷۰، ۳۷۱)

 قالوا إن جاء الزنديق قبل أن يؤخذ فأقر أنہ زنديق فتاب عن ذلك قبلت توبتہ وإن أخذ ثم تاب لا تقبل توبته ويقتل لأنهم باطنية يظهرون الإسلام ويعتقدون في الباطن خلاف ذلك فيقتلون ولا تقبل توبتهم ولا تؤخذ منهم الجزية

ترجمہ: فقہاء نے فرمایا کہ اگر کوئی زندیق گر فتار ہونے سے پہلے آکر یہ اقرار کر لے کہ وہ زندیق تھا اور اس نے زندقہ سے توبہ کر لی ہے تو اس کی توبہ قبول ہو گی لیکن اگر گر فتار ہو گیا اور پھر توبہ کی تو توبہ قبول نہ ہو گیا اور اسے قتل کر دیا جائے گا، اس لیے کہ یہ باطنی ہیں جو اسلام کا اظہار کرتے ہیں اور باطن میں ظاہر کے خلاف عقید ہ ر کھتے ہیں کہ انہیں قتل کر دیا جائے گا اور ان سے جز یہ نہیں لیا جائے گا۔

 وفي أحكام القرآن للجصاص ( ۱/ ۲۴، دار الكتب العلمية، بيروت)

 قال أبو حنيفة: “اقتلوا الزنديق سرا فإن توبته لا تعرف”. ولم يحك أبو يوسف خلافه ويصح بناء مسألة الساحر علیہ و لأن الساحر يكفر سرا فهو بمنزلة الزنديق فالواجب أن لا تقبل توبته .

 وقولهم في ترک قبول توبة الزنديق، يوجب أن لا يستتاب الإسماعيلية وسائر الملحدين الذين قد علم منهم اعتقاد الكفر كسائر الزنادقة وأن يقتلوا مع إظهارهم التوبة.

وفي الهندية (كتاب الكراهية الباب الثلاثون ۵/ ۳۸۱، دارالفکر بیروت)

الخناق والساحر يقتلان لأنها يسعيان في الأرض بالفساد وإن تابا لم يقبل ذلک منها وإن أخذا ثم تابا لم يقبل منها ويقتلان وكذا الزنديق المعروف الداعی و بہ یفتی كذا في خزانة المفتين.

 ترجمہ : خناق ( گلا دبا کر مارنے والا) اور ساحر ( جادوگر) کو قتل کر دیا جائے گا کیونکہ یہ دونوں زمین فساد پھیلانے کی کوشش میں رہتے ہیں اور اگر توبہ کر لیں تو ان کی توبہ قبول نہ ہو گی اور اگر گر فتار ہو گئے پھر توبہ کی تو ان کی توبہ قبول نہ ہو گی اور انہیں قتل کر دیا جائے گا زندیق معروف اور دادی کا بھی یہی حکم ہے، خزانه المفتین میں یوں ہی ہے.

وقال الإمام محمد عبد الحي لکنوي في القول الجازم في سقوط الحد بنكاح المحارم (۱۰۵)

إن الساحر أو الزنديق الداعي إذا أخذ قبل توبتہ ثم تاب لم تقبل توبته ويقتل، ولو أخذ بعدها قبلت۔

ترجمہ: جادو گر یازندیق داعی اگر توبہ سے پہلے گرفتار کر لیا جائے اور پھر وہ توبہ کرے تو اس کی توبہ قبول نہ ہو گی اور اسے قتل کر دیا جائے گا اور اگر توبہ کے بعد گرفتار ہوا تو اس کی توبہ قبول ہو گی۔

 وفي الموسوعة الفقهية الكويتية (الحكم بكفرمن تزندق، ۴۹/۲٤ ، وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية – الكويت)

 يتفق الفقهاء على أن الزندقة كفر، فمن كان مسلما ثم نزندق، بأن صار يبطن الكفر ويظهر الإسلام، أو صار لا يتدين بدين، فإنه يعتبر كافرا، إلا أن الفقهاء اختلفوا في استتابته وفي قبول توبتہ وبيان ذلك فيما يلي : يفرق الحنفية والمالكية بين من تاب قبل الاطلاع علیہ والعلم بزندقته، وبين من أخذ قبل أن يتوب، فمن كان زنديقا ثم تاب إلى الله ورجع عن زندقته، وتقدم معلنا توبتہ قبل أن يعرف ذلك عنہ قبلت توبتہ ولا يقتل، وہذا ہو مذهب المالكية وفي رواية عند الحنفية، فقد ذكر صاحب الدر المختار نقلا عن الحانية أن الفتوى على أن الزنديق إن أخذ بعد أن تاب قبلت توبتہ وبهذا قال أبو حنيفة

والقول الثاني عند الحنفية أنه يقتل ولا تقبل توبتہ .وان اطلع عليه قبل أن يتوب ورفع إلى الحاكم فلا تقبل توبته ويقتل، وطريق العلم بحالہ إما باعترافه أو بشهادة بعض الناس عليه، أو يسر ہو بحاله إلى من أمن إليہ..

 ترجمہ: فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ زندقہ کفر ہے، پس جو مسلمان تھا اور پھر زندیق ہو گیا، اس طرح کہ کفر چھپانے لگا اور اسلام کا اظہار کرنے لگایا بے دین ہو گیا تو اسے کافر سمجھاجائے گا، ہاں فقہاء کا اس سے توبہ کے مطالبہ کرنے اور توبہ قبول کرنے میں اختلاف ہے، اس کی وضاحت یہ ہے کہ حنفیہ اور مالکیہ ایسے زندیق میں کہ جس کی خبر ہونے سے پہلے اور اس کے زندقہ معلوم ہونے سے پہلے توبہ کر لے اور اس زندیق میں کہ جو توبہ سے پہلے گرفتار ہو جائے فرق کرتے ہیں، چنانچہ جو زندیق تھا پھر اس نے الله تعالی سے توبہ کر لی اور زندقہ سے واپس لوٹ آیا اور اس کا زندقہ معروف ہونے سے پہلے توبہ کا اعلان کر دیا تو اس کی توبہ قبول ہو گی اور اسے قتل نہیں کیا جائے گا،  مالکیہ کا یہی مذہب ہے اور ایک روایت میں حنفیہ کا بھی ، صاحب در مختار نے خانیہ سے نقل کرتے ہوئے ذکر فرمایا ہے کہ فتوی اس پر ہے کہ اگر توبہ کے بعد پکڑا جائے تو اس کی توبہ قبول کی جائے گی، حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے بھی یہی  فرمایا ہے، حنفیہ کا دوسرا قول یہ ہے کہ اسے قتل کر دیا جائے گا اور اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی،اور اگر توبہ سے پہلے اس کی خبر ہوگئی اور معاملہ حاکم کے پاس چلا گیا تو اس کی توبہ قبول نہ ہو گی اور اسے قتل کر دیا جائے، اور اس کا حال معلوم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ یا توخود اقرار کرلے یا کچھ لوگ اس کے خلاف گواہی دے دیں یا یہ کہ وہ اپنا حال راز کے طور پر ایسے شخص سے بیان کر دے جس پر اسے اطمینان ہو۔

 وفي إكفار الملحدين للإمام أنورشاه الكشميری (۱۳، المجلس العلمي، كراتشي، باكستان)

قال: التفتازاني في “مقاصد الطالبين في أصول الدين”: الكافر إن أظهر الإيمان خص باسم “المنافق”، ………….وإن أبطن عقائد ہی کفر بالإتفاق “فبالزنديق”. وقال في شرحہ: قد ظهر أن: “الكافر” اسم لمن لا إيمان له: فإن أظهر الإيمان خص باسم المنافق، وإن طرأ كفره بعد الإسلام خص باسم المرتد، لرجوعه عن الإسلام………….وان كان مع اعترافہ بنبوة النبي – صلى الله علیہ وسلم – واظهاره شعائر الإسلام يبطن عقائد ہی کفر بالاتفاق، خص باسم الزنيدق، وهو في الأصل منسوب إلى: الزند، اسم كتاب أظهر مزدک أيام قباد: وزعم أنه تأويل كتاب المجوس الذي جاء بہ زرادشت. الذي يزعمون أنه نبيهم. قوله: “المعروف” اہ. فإن الزنديق يموه يكفره، ويروج عقیدتہ الفاسدة، ويخرجها في الصورة الصحيحة ، وهذا معنى إبطان الكفر، فلا ينافي إظهاره الدعوى إلى الضلال، وكون معروفة بالإضلال اہ. ابن كمال.

وفيه أيضا (۴۴، ۴۵)

وإن اعترف بہ ظاہرا لكنه يفسر بعض ما ثبت من الدين ضرورة بخلاف ما فسره الصحابة والتابعون وأجمعت عليه الأمة فهو الزنديق ………………. ثم التأويل تأويلان: تأويل لا يخالف قاطعة من الكتاب والسنة واتفاق الأمة، وتأويل يصادم ما ثبت بالقاطع، فذلک الزندقة –

 اور اگر ظاہر ا تو اسلام کا اقرار کر تا ہو لیکن بعض ضروریات دین کی تشریح  حضرات صحابہ کرام، تابعین عظام اور اجماع امت کے خلاف کر تاہو تو ایسا شخص زندیق ہے۔ نیز تاویل دو طرح کی ہے ایک وہ تاویل جو کتاب و سنت اور اجماع امت سے ثابت کسی قطعی بات کے مخالف نہ ہو اور دوسری ایسی تاویں جو دلیل قطعی سے ثابت کسی حکم سے ٹکرا  رہی ہویہ (دوسری تاویل) زندقہ ہے۔

قال الشيخ الإمام محمد ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ تعالی (المقالة المفيدة أحسن البیان فی تحقیق مسئلة الكفر والإيمان، مع مجموعة الرسائل في رد القاديانية، ٤٢٦، ناشر: عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت باكستان)

جو شخص ظاہر اور باطن میں دین اسلام کا منکر ہو وہ کافر ہے اور جو ظاہر میں مقر اور باطن میں منکر ہو وہ منافق ہے اور جو شخص دین اسلام کا تو دل سے مقر ہو مگر ضروریات دین میں ایسی تاویلیں کر تا ہو جس سے شریعت کی حقیقت اور غرض و غایت ہی بدل جائے تو ایک شخص اصطلاح شریعت میں ملحد  اور زندیق کہلاتا ہے اور جس طرح منافت کا حکم  کافر سے اشد ہے اسی طرح ملحد  اور زندیق کا حکم منافق سے اشد ہے اور الحاد اور زندقہ در حقیقت نفاق کی اعلی ترین قسم ہے، جس طرح منافقت ملمع کاری  سے کام لیتا ہے، اسی طرح ملحد  اور زندیق اپنے عقائد کفریہ پر تاو یل فاسد کے ذریعہ اسلامی صورت کاملمع  کر کے لوگوں کے سامنے پیش کر تا ہے تا کہ لوگ اسلام کے دھو کہ میں اس کے باطنی کفر کو قبول کر لیں“

 والفقه الإسلامي وأدلته للزحیلی (القسم الخامس: الفقه العام، الباب الأول الحدود الشرعية، توبة الزنديق، ا ٥٥٦/٧، دار الفكر، دمشق)

واختلف العلماء في توبة الزنديق، فقال العترة من الزيدية ، وأبو حنيفة ومحمد والشافعي: تقبل توبة الزنادقة ولا يقتلون؛ العموم قوله تعالى: (قل للذين كفروا: إن ينتهوا يغفر لهم ما قد سلف ) (الأنفال:8) وقال مالك وأبو يوسف والجصاص: لا تقبل توبتهم، فإذا عثر على الزنديق قتل ولا يستتاب، ولا يقبل منہ ادعاء التوبة إذ يعرف منہ عادة التظاهر بالتوبة تقية ، بخلاف ما يبطنہ، واستثنى الإمام مالک من جاء تائبا قبل ظهور زندقتہ فتقبل توبتہ – والمفتى به في مذهب الحنفية أن الزنديق إذا أخذ قبل توبته ثم تاب لم تقبل توبته ويقتل، ولو أخذ بعدها قبلت۔

 وفي شرح النقاية ( ۵/ ۱۲۲)

ولا توضع أيضا على زنديق، بل إن جاء قبل أن يؤخذ وأقر أنہ زندیق وتاب تقبل توبتہ، وإن أخذ ثم تاب يقتل ولا تقبل (توبتہ ولا) منہ الجزية، لأنه يعتقد في الباطن خلاف الظاہر.

قرآن کریم نے کفر کی اس خطرناک اور بد ترین صورت کو الحاد قرار دیا ہے اور حدیث پاک میں اسے زندقہ کہا گیا ہے اور فقہاء کرام اسے کبھی باطنیت کہتے ہیں اور بھی زندقہ کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں۔ (جواہر الفقه، ۱ / ۲۹، مکتبہ دارالعلوم کراچی ، طبع قدیم) . فقط

واللہ تعالی اعلم بالصواب و علمہ اتم واحکم

عبد الصمد ساجد عفا عنہ الاحد الماجد

معین دار الافتاء جامعہ حقانیہ ، ساہیوال، سرگودھا

حسب ہدایت و ارشاد حضرت الاستاذ فقیہ وقت

مفتی سید عبد القدوس ترمذی دامت برکاتہم العالیہ

 ۱۸ ربیع الثانی ۴۳۹ اھ

 ۲۰۱۸/۱/۴ء

احقر نے یہ جواب بغور پڑھا،بحمد  اللہ اپنے موضوع پر کافی شافی ہے۔ جزى الله المجيب خير الجزاء۔ سوال میں جن لوگوں کے بارہ میں سوال کیا گیا ہے شرعی اعتبار سے جب وہ زندیق ہیں اور زندیق کی سزا اسلامی حکومت میں قتل ہے، جس کی ذمہ داری حکومت اسلامیہ پر ہے تو پھر انہیں مراعات اور عہدے دینا کیسے جائز ہو سکتا ہے؟ شرعا اس کی گنجائش نہیں ہے سوائے اس صورت کے جس میں ان کی توبہ قبول ہوتی ہے۔

 فقط احقر عبد القدوس ترمذی غفرلہ

دار الافتاء جامعہ حقانیہ ، ساہیوال، سرگودھا۔

١٨/٤/١٤٣٩ھ

عربی حوالہ جات وپی ڈی ایف فائل میں فتویٰ حاصل کرنےکےلیے لنک پرکلک کریں :

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/permalink/698159627219952/

اپنا تبصرہ بھیجیں