قرض لی ہوئی رقم پر زکوٰۃ کا حکم

سوال:میرا یہ سوال ہےکہ میں صاحب نصاب ہوں۔ پچھلے سال میرے پاس جو زیور پیسا تھا۔میں نے اس کی زکوٰۃ نکالی اور رمضان میں ہی میرے والد کی وفات کے بعد جو میرا پیسا بنتا تھا وہ میرے بھائی نے مجھے دیا۔میں نے اس کی بھی زکوٰۃ نکال دی مگر رمضان میں ہی میں نے مکان خریدا اور کچھ رقم مالک مکان کو دے دی بقایا اس نے رمضان کے بعد کا وقت دیا میرے پاس مکان کی کل رقم نہیں تھی۔میں نے رمضان میں ہی اپنی بہن سے قرض لیا۔ تو کیا وہ رقم بھی میرے نصاب میں شامل ہو گی؟ اور کیا مجھے اس کی بھی زکوٰۃ دینی ہو گی۔جب کہ یہ قرض ہے اور مجھے ادا کرنا ہے۔جو کہ میرے لیے ابھی ممکن نہیں ہے۔
الجواب باسم ملھم الصواب
قرض لی ہوئی رقم کی زکوٰۃ آپ پر لازم نہیں بلکہ رقم کے مالک( قرض دینے والے) پر ہی لازم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:

1:فتاوی شامی میں ہے:

”(و) اعلم أن الديون عند الإمام ثلاثة: قوي، ومتوسط، وضعيف؛ (فتجب) زكاتها إذا تم نصاباً وحال الحول، لكن لا فوراً بل (عند قبض أربعين درهماً من الدين) القوي كقرض (وبدل مال تجارة) فكلما قبض أربعين درهماً يلزمه درهم.

 (قوله: عند قبض أربعين درهماً) قال في المحيط؛ لأن الزكاة لاتجب في الكسور من النصاب الثاني عنده ما لم يبلغ أربعين للحرج، فكذلك لايجب الأداء ما لم يبلغ أربعين للحرج. وذكر في المنتقى: رجل له ثلثمائة درهم دين حال عليها ثلاثة أحوال فقبض مائتين، فعند أبي حنيفة يزكي للسنة الأولى خمسة وللثانية والثالثة أربعة أربعة من مائة وستين، ولا شيء عليه في الفضل؛ لأنه دون الأربعين. اهـ“. (2/ 305،  کتاب الزکاة، باب زکاة المال، ط: سعید) 
والله سبحانه وتعالى اعلم
تاريخ 1/3/23
8شعبان1444

اپنا تبصرہ بھیجیں