قطع رحمی کرنے والوں کے ساتھ صلہ رحمی کرنا

فتویٰ نمبر:985

سوال: محترم جناب مفتیان کرام!

السلام علیکم ّ! اگر کوئی بندہ اپنے رشتہ داروں سے خود قطع تعلق نہ کرے رشتہ دار خود ہی کنارہ کرلے اور بندہ بھی اس لیے ان سے بات نہ کرتا ہو کہ وہ کچھ بھی کہ دیں گےآگے سے اور قطع تعلق کی وجہ خود رشتہ دار پیدا کرے تو اس صورت میں بھی دونوں فریق قطع تعلق کرنے والوں کے زمرے میں آئیں گے؟

والسلام

الجواب حامدۃو مصلية

جی ہاں! یہ صورت جو آپ نے تحریر کی ہے قطع تعلق کے حکم میں ہےکیونکہ صلہ رحمی کا مطلب ہے :رشتہ داروں کےساتھ حسن سلوک کرنایعنی ان کے ساتھ بہترتعلقات قائم رکھنا، ان کی ہمدردی وخیرخواہی کےجذبات سے سرشار رہنا۔

اس سلسلے میں آپﷺ کے ارشاد ات ہمارے لیے بہترین راہ نما ہیں:

چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمرورضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:وہ شخص صلہ ٔ رحمی کرنے والا نہیں ہےجو برابرسرابر کا معاملہ کرنے والا ہو۔صلہ رحمی کرنے والا تو ہے جو دوسرے کے توڑنے پر بھی صلہ رحمی کرے۔

دوسري حديث کے راوی کہتےہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا : یارسول اللہ!میرے رشتہ داروں نے مجھے چھوڑ دیا ہے اور مجھ سے قطع تعلقی کر لی ہے تو میں بھی ان کو چھوڑ دوں جیسے انہوں نے مجھے چھوڑدیا ہے؟ اور ان سے قطع تعلق کر لوں جیسے انہوں نے کر لیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: (اگر ان کی طرح تم بھی ایسا کر لوگے) تو پھر اللہ تعالی تم سب کو چھوڑ دے گااور اگر تم ان کی قطع رحمی کے باوجود ان کےساتھ صلہ رحمی کرو گےتو ان کے مقابلہ میں تمہارے ساتھ اللہ کی مدد شامل ِ حال ہوگی۔ 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے عرض کی : یا رسول اللہ! میرے رشتہ دارہیں میں ان سے صلہ رحمی کرتا ہوں اور وہ مجھ سے قطع رحمی کرتے ہیں، میں ان کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہوں اور وہ مجھ سے بد سلوکی کرتے ہیں ، اور وہ میرے ساتھ جھگڑتے ہیں اور میں برداشت سے کام لیتا ہوں ۔توآپﷺ نے فرمایا: اگر تم ایسے ہی کر رہے ہو جیسے تم نے کہا تو پھر گویا تم ان کو گرم راکھ کھلا رہے ہواور ان کے مقابلہ میں ہمیشہ تمہارے ساتھ اللہ کی مددشامل ِ حال رہےگی جب تک تم اس حالت پر قائم رہو گے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:تین صفات ایسی ہیں کہ وہ جس شخص میں بھی ہوں اللہ تعالی اس سے آسان حساب لے گا اوراسے اپنی رحمت سے جنت میں داخل فرمائے گا ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی : یا رسول اللہ ! کن(صفات والوں ) کو؟ آپﷺنے فرمایا: جو تجھے محروم کرے تُو اسے عطا کر،جو تُجھ پر ظلم کرے تُو اسے معاف کر،اور جو تجھ سے (رشتہ داری اور تعلق) توڑے تُو اس سے جوڑ۔ صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کی: یا رسول اللہ!اگر میں یہ کام کر لوں تو مجھے کیا ملے گا؟ آپﷺ نے فرمایا: تجھ سے حساب آسان لیا جائے گا اور تجھےا للہ تعالی اپنی رحمت سے جنت میں داخل فرما دے گا۔

احاديث بالا سے ہمیں یہ درس ملتاہے کہ صلہ رحمی تو در حقیقت یہی ہے کہ اگر دوسرے کی طرف سے بے التفاتی،بے نیازی ،قطعِ تعلق ہو تو ہم اس کے جوڑنے کی فکر میں رہیں ۔ لہذا آپ یہ نہ دیکھيں کہ آپ کے رشتہ دار آپ کے ساتھ کیا برتاؤ کرتے ہيں، ہر وقت يہ سوچیں کہ میرے ذمہ کیا حق ہے ، مجھے کیا کرنا چاہیے۔ بہر حال لوگوں کے رویے کی پروا کیے بغیر اللہ تعالی کے حکم کی تابع داری اور اس کی رضامندی کو مقصود بنائے رکھنا چاہیے کہ اِس پر اللہ کے سچے نبیﷺنے داخلہ ٔ جنت کی خوش خبری سنائی ہے ۔

” عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَيْسَ الوَاصِلُ بِالْمُكَافِئِ، وَلَكِنَّ الوَاصِلَ الَّذِي إِذَا قُطِعَتْ رَحِمُهُ وَصَلَهَا”

(صحیح البخاری :5991)

قَالَ مُجَمِّعُ بْنُ يَحْيَى: حَدَّثَنِي رَجُلٌ أَنَّ رَجُلًا قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ رَحِمِي قَدْ رَفَضُونِي وَقَطَعُونِي، فَأَرْفُضُهُمْ كَمَا رَفَضُونِي، وَأَقْطَعُهُمْ كَمَا قَطَعُونِي؟ قَالَ: إِذًا يَرْفُضُكُمُ اللهُ جَمِيعًا، وَإِنْ أَنْتَ وَصَلْتَ وَقَطَعُوكَ كَانَ مَعَكَ مِنَ اللهِ ظَهِيرٌ عَلَيْهِمْ”

(البر والصلة للمَرْوَزی :۱۱۸)

“عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّ لِي قَرَابَةً أَصِلُهُمْ وَيَقْطَعُونِي، وَأُحْسِنُ إِلَيْهِمْ وَيُسِيئُونَ إِلَيَّ، وَأَحْلُمُ عَنْهُمْ وَيَجْهَلُونَ عَلَيَّ، فَقَالَ: لَئِنْ كُنْتَ كَمَا قُلْتَ، فَكانّما تُسِفُّهُمُ الْمَلَّ وَلَا يَزَالُ مَعَكَ مِنَ اللهِ ظَهِيرٌ عَلَيْهِمْ مَا دُمْتَ عَلَى ذَلِكَ”

(صحیح مسلم :۲۵۵۸۔)

“عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ حَاسَبَهُ اللهُ حِسَابًا يَسِيرًا وَأَدْخَلَهُ الْجَنَّةَ بِرَحْمَتِهِ قَالُوا: لِمَنْ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: تُعْطِي مَنْ حَرَمَكَ، وَتَعْفُو عَمَّنْ ظَلَمَكَ، وَتَصِلُ مَنْ قَطَعَكَ ۔قَالَ: فَإِذَا فَعَلْتُ ذَلِكَ، فَمَا لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: أَنْ تُحَاسَبَ حِسَابًا يَسِيرًا وَيُدْخِلَكَ اللهُ الْجَنَّةَ بِرَحْمَتِهِ”

(المستدرک علی الؔصحیحین للحاکم :۳۹۱۲، وقال الحاکم: هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه “۔)

“عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ، قَالَ: قِيلَ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ:الصَّدَقَةُ عَلَى ذِي الرَّحِمِ الْكَاشِحِ”

(مسند أحمد :۱۵۳۲۰: وقال محققہ: حدیث صحیح ، المعجم الکبیر :۳۱۲۶، وقال الھیثمی فی المجمع:۴۶۴۸: رواه أحمد، والطبراني في الكبير، وإسناده حسن.وأخرجہ الحاکم فی المستدرک: ۱۴۷۵:وقال: هذا حديث صحيح على شرط مسلم، ولم يخرجاه، وله شاهد بإسناد صحيح۔)

و اللہ الموفق

✍بقلم : بنت محمود

قمری تاریخ:۱۴ رمضان ١٤٣٩ھ

عیسوی تاریخ:۳۰ مئی ٢٠١٨ ء

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں